اس مہینے 11 جولائی کو آبادی کا عالمی دن منایاگیا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دسمبر1990کو فیصلہ کیا کہ آبادی کے عالمی دن کو مستقل طور پر منایا جائے کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی نہ صرف عالمی ماحولیات کے لیے تباہ کن ہے بلکہ اس کے عورت کی صحت پر بھی سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ دنیا کے کئی ممالک آج بھی زمانہ قدیم کی اس روایت پر عمل پیرا ہیں جس میں بڑی فیملی خاندان کو طاقت کی علامت سمجھا جاتا تھا کیونکہ فرد انفرادی طور پر غیر محفوظ تھا۔ اس لیے بڑا خاندان بڑا قبیلہ ہی اس کی حفاظت کرتا تھا۔ آج کے دور میں فرد کی حفاظت کی ذمے داری ریاست نے سنبھال لی ہے ۔ فوج اور پولیس وغیرہ کی شکل میں ۔
آج کی دنیا Quantityکی نہیں Quality کی ہے ۔ یعنی فلسفہ یہ ہے کہ ملکوں کی آبادی کو محدود رکھ کر ان پر ریاست کے بھر پور وسائل صرف کیے جائیں جس کے ذریعے ایک ایسی نسل کو پروان چڑھایا جائے جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں اعلی تربیت یافتہ ہوتے ہوئے دنیا پر غلبہ حاصل کرے ۔ اس کی تازہ ترین مثال حالیہ اسرائیل ایران جنگ ہے ۔ جس میں اسرائیل نے اپنی سپر ٹیکنالوجی کے ذریعے ایران کو جنگ کی ابتداء میں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جب کہ ایران بالکل بے بس نظر آیا۔ مسلم دنیا کے لیے یہ ایک تکلیف دہ منظر تھا۔ جو ملک اپنی حفاظت نہ کر سکے وہ اپنی بقاء کھو بیٹھتا ہے ۔
فوراً بعد ایران نے وہ تاریخی کارنامہ انجام دیا جو ایران دشمن اسرائیل اور امریکا سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور کو ایران نے پاش پاش کرکے رکھ دیا۔ 18برس پیشتر اسرائیل کے لبنان پر ناکام حملے کے بعد جنگی ٹیکنالوجی کی ترقی رکی نہیں ۔ اسرائیل نے اس سے سبق سیکھا اور اپنی عسکری ٹیکنالوجی کو اس بلند ترین مقام تک پہنچا دیا جس کے ذریعے اس نے حزب اﷲ اور حماس کو ایسا نقصان پہنچایا کہ وہ حالیہ اسرائیل ایران جنگ میں مفلوج ہو کر رہ گئے ۔مدد کرنا تو درکنار۔ایک امریکی اخبار کے مطابق سب کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا ۔ ایک گولی چلائے بغیر کابل فتح ہو جاتا ہے ۔
ایک گولی چلائے بغیر دمشق فتح ہو جاتا ہے اور اس کو اس شخصیت کے حوالے کیا جاتا ہے جس کو امریکا نے دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کے سر کی قیمت 1کروڑ ڈالر مقرر کی ہوئی تھی ۔ ہمارے ہاں ایک بڑا حلقہ ایسا بھی ہے جو اسے اسلام کی نشاۃ ثانیہ سے تعبیر کر رہا ہے ۔ ہماری عقلوں کو کیا ہو گیا ہے وہ سازشیں جو مسلم دنیا کے خلاف خاص طور پر افغان جہاد سے شروع ہوئیں ہم آج تک اسے سمجھ ہی نہیں پا رہے ۔ حالانکہ اس سازش کو سمجھنا انتہائی آسان اور سامنے کی بات ہے ۔
1990 کی دہائی میں ایرانی مذہبی قیادت نے ایٹم بم کے خلاف فتوی دیا تو ایران نے ایٹم بم بنانے کا کام روک دیا ۔ جب اس پر دوبارہ کام شروع کیا تو بہت دیر ہو چکی تھی ۔ اندازہ کریں اسرائیل کے پاس قریباً 100ایٹم بم ہیں اور اس کے پیچھے امریکا اور پورے مغرب کی ٹیکنالوجی ہے اور یہاں ایٹم بم کے خلاف فتوی دیا جارہا ہے ۔
آج اگر ایران کے پاس ایٹم بم ہوتا تو نہ صرف ایران محفوظ ہوتا بلکہ حزب اﷲ حماس اور فلسطینی بھی محفوظ ہوتے اور ان کا اس طرح روزانہ قتل عام نہ ہو رہا ہوتا ۔ پاکستان مزید محفوظ اور مستحکم ہوتا، دو برادر ایٹمی ملک ہونے کی صورت میں ۔حالیہ ایران اسرائیل جنگ میں ایرانی عوام نے بھی ایٹم بم بنانے کے اس فتوی کے خلاف شدید غم وغصے کا اظہار کیا ۔ یہ فتوی نری مذہبی جذباتیت کے سوا کچھ نہ تھا۔ اب کوئی جواب دے گا اس فتوی سے خود ایران اور مسلم دنیا کو کتنا نقصان پہنچا اس کا ذمے دار کون ہے ؟
ایران اسرائیل جنگ کے بعد جو حقائق سامنے آرہے ہیں اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایرانی انٹیلی جنس ہو یا فوج، انتظامیہ یا دوسرے ادارے ان سب میں موساد اور امریکی CIAکے ایجنٹ نہایت مؤثر انداز میں شامل رہے ہیں ۔ اسی لیے ایرانی آرمی چیف، عسکری سربراہان اور ایرانی نیو کلیئر ایجنسی کے سربراہ اور دیگر درجنوں سائنسدانوں کو بڑی آسانی سے نشانہ بنایا گیا۔ خود دارالحکومت تہران کے اندر اسرائیل نے ڈرون اڈے بنائے ۔
یقین نہیں آتا لیکن حقیقت یہی ہے ۔ ایک یہودی موساد کا ایجنٹ قم کی ایک مسجد میں امامت کر رہا تھا۔ مزید یہ کہ ایک یہودی خاتون عالمہ کے بھیس میں ایرانی مذہبی اداروں اور مقتدر حلقوں تک رسائی رکھتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ جناب خامناای ایک طویل مدت سے ایرانی نظام میں کلی مقتدر ہیں ۔ یہ تو ایرانی انٹیلی جنس کی مکمل ناکامی ہے جس کے سربراہ جناب خامناای ہیں۔ اور تو اور سابق ایرانی صدر احمدی نثراد کے بقول ان کا ایڈوائزر موساد کا ایجنٹ تھا۔ سرپیٹ لینے کو دل چاہتا ہے ۔