35 C
Lahore
Sunday, July 20, 2025
ہومغزہ لہو لہوبارشیں - ایکسپریس اردو

بارشیں – ایکسپریس اردو


آج کل ہم شدید بارشوں کی زد میں ہیں۔ ہر تین یا چار سال بعد یہ شدید بارشیں، سیلاب کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ 2022میں سندھ میں ایسی بارشیں ہوئی تھیں جو لگ بھگ دو دن مسلسل جاری رہیں۔ ان بارشوں کی تباہی نے دنیا بھر میں خبر بنائی۔ ہمیں امداد بھی فراہم کی گئی اور لاکھوں گھر بنانے کا کام بھی شروع ہوا۔ حالیہ بارشیں راولپنڈی، چکوال اور پنجاب کے پوٹھوہار علاقوں میں ہوئی ہیں۔ یہ شدید بارش جو لگ بھگ چار سو ملی میٹر سے لے کر پانچ سو ملی لیٹر تک ہوئی ہے، جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ہے۔

2022 میں سندھ میں ہونے والی بارشیں بھی اتنی ہی شدید تھیں مگر وہ دو دن تک جاری رہیں جب کہ پنجاب پوٹھوہار علاقوں میں حالیہ بارشوں نے محض چودہ گھنٹوں میں ہی تباہی مچا دی، بہت سی جانیں ضایع ہوئیں، لوگوں کے مال مویشی سیلاب کے ریلوں میں بہہ گئے ، کچے گھر زمین بوس ہوئے ہیں۔ مزید لا کھوں لوگوں کے بے گھر ہونے کا خدشہ ہے۔ اسلام آباد بھی شدید بارشوں کی لپیٹ میں ہے مگر شاید ایسی صورتحال نہیں کہ وہ اس لیے کہ اس شہرکا اسٹرکچر اور پلاننگ بہت بہتر ہے، بارشیں ہوتی ہیں مگر پانی نہیں ٹھہرتا۔

پاکستان شدید ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ دنیا کے چار بڑے ممالک اسی صورتحال سے دوچار ہیں اور ہم ان میں سے ایک ہیں۔ یہاں بہت سی ہاؤسنگ اسکیمز ایسی ہیں جو قبضہ کیے ہوئے نالوں پر بنائی گئی ہیں اور جب ایسی بارشیں ہوتی ہیں تو پانی گھروں کی چھتوں تک آجاتا ہے۔ کراچی شہر ایسی بارشوں کا متحمل نہیں، اگر بارشیں ہو جائیں تو بہت نقصان ہوگا، کیونکہ یہاں فطری نالوں پر عمارتیں اورگھر بنائے گئے ہیں۔ ہم جوڈیشل ایکٹو ازم کو جتنا بھی برا بھلا کہیں لیکن کراچی میں بہت سی ایسی عمارتیں اور گھر ان عدالتوں نے خالی کروائے جو نالوں پر بنے ہوئے تھے۔

 قدرتی آفات سے فی الفور نمٹنے کے لیے ہمارے پاس کوئی جامع پالیسی نہیں اور نہ ہی فعال ادارے ہیں اور اگر ادارے ہیں بھی تو ان کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے۔ ان اداروں پر کرپشن کے ہزاروں اسکینڈل بنے ہوئے ہیں۔ ایسی قدرتی آفات اور حادثات حکمرانوں اور افسرِ شاہی کے لیے باعثِ رحمت ہیں کہ ان کو امداد ملنے کے مواقعے حاصل ہوتے ہیں، پھر اس امداد سے وہ اپنے الو سیدھے کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیاں اور ان کے اثرات اس وقت پوری دنیا میں زیربحث موضوعات ہیں لیکن ہم ان موضوعات پرنہ ہی کسی پرنٹ میڈیا میں، سوشل فورم پر اور نہ ہی کسی ٹاک شوز پر بات کرتے ہیں۔

آنے والے تیس برسوں میں درجہ حرارت 55  ڈگری تک جاسکتا ہے، جہاں آج کل 45  ڈگری تک ہے، اگر ایسا ہوا تو سندھ میں بھی لوگ گلگت و چلاس کی طرح سردیوں میں جیسا کہ وہ پہاڑوں سے نیچے آجاتے ہیں اور گرمیوں میں پہاڑوں پر واپس چلے جاتے ہیں،گرمیوں میں نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے اور سردیوں میں اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے۔

پانی، اب ہماری سیاست کا مرکز ہے۔ جب دریاؤں میں پانی کم ہوتا ہے تو سندھ میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے اور یہ کمی ہماری قومی یکجہتی کو نقصان پہنچاتی ہے۔ جب سیلاب آتے ہیں اور انڈس ڈیلٹا کو پانی فراہم کیا جاتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس وقت پانی ضایع ہو رہا ہے۔ اس پانی کی تقسیم، پانی کی کمی یا پھر پانی کی زیادتی تمام صورتحال سے نمٹنے کے لیے سائنسی اعتبار سے ہمارے پاس نہ تو کوئی بیانیہ ہے اور نہ ہی کوئی سسٹم، اگر گرمی کی شدت برقرار رہی تو یقیناً ہزاروں گلیشیئرز پگھلیں گے۔ اس دفعہ اسکردو اورگرد و نواح میں درجہ حرارت 44 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جو کہ ایک طرح سے خطرے کی گھنٹی ہے، اگر گلیشئرز پگھلے یا پھر دریا خشک ہوئے تو پانی کی ترتیب ناہموار ہو جائے گی۔ ہماری فصلوں کو وافر مقدار میں پانی کی ضرورت ہے اور خصوصاً خریف کی فصلوں میں۔

 آبادی کے اعتبار سے ہمارے چھوٹے اور بڑے شہر پھیل رہے ہیں لیکن کوئی منصوبہ بندی نہیں۔ ہمارے ادارے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی یا پھر ایسے ادارے جو سرٹیفکیٹ جاری کرتے ہیں وہ انتہا کی لاپرواہی برتتے ہیں۔ خاص کر مخدوش عمارتوں کے حوالے سے جیسا کہ حال ہی میں لیاری میں دو عمارت گریں، جس میں کئی معصوم جانیں ضایع ہوگئیں۔

بارشیں، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیاں ہماری بری حکمرانی کو بے نقاب کرتی ہیں۔ بری حکمرانی، عوام کے اندر بے چینی کا باعث ہے اور حکومت کے مخالفین ان کو کمزورکرنے کے لیے ایسے مواقعے کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے بعد حکومت صرف چند دن ہی مصروف نظر آتی ہے۔ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر اوپر سے سیلاب کے نظارے کیے جاتے ہیں مگر کوئی پالیسی وضع نہیں کی جاتی۔

اس دفعہ سکھر بیراج میں اگرگیارہ لاکھ کیوسک پانی چھوڑا جاتا ہے جو علامت ہے، اونچے درجے کے سیلاب کی توکیا سکھر بیراج جو اپنی میعاد پوری کرچکا ہے، اس پانی کے دباؤ کو برداشت کر سکے گا۔ سکھر بیراج کی کل میعاد تھی پچاس سال، جب کہ سکھر بیراج کو بنے سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ سندھ اریگیشن ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی کیا ہے وہ ہم سے پوشیدہ نہیں۔ ہر ادارے میں افسر و ملازمین کا ایک گروپ مافیا بن کر کام کرتا ہے، یہی گروپ کرپشن میں ملوث ہوتا ہے لیکن چند گندی مچھلیاں پورا ادارے کی ساکھ اور کارکردگی کو تباہ کردیتی ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلیاں، فطری سیلاب، قدرتی آفات ایک طرف اور دوسری طرف ہماری بری حکمرانی۔ پھر سونے پہ سہاگہ یہ کہ کوئی پالیسی، میکنزم موجود نہیں۔ یہ حقائق ہمیں ایک بہت بڑے بحران کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ یہ تمام کمزوریاں مستقل طور پر اس لیے بھی ہیں کہ ہماری سیاست ایڈہاک پر چل رہی ہے۔ ہمارے تضادات تہذیب اور اخلاقیات کے دائرے میں نہیں ہیں۔ ہم حکومت کے خلاف کسی بھی تحریک کو اس نہج تک لے جاتے ہیں جہاں ملک کی سلامتی اور ساخت کو نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے۔

ہمیں نہ صرف اندرونی و بیرون خطرات ہیں بلکہ ہماری سیکیورٹی کو خطرہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے بھی ہے۔ گرمی کے باعث سمندرکی سطح اوپرکی طرف بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے انڈس ڈیلٹا تباہی کا شکار ہے۔ سیکڑوں ایکڑ زمین سمندر نگل چکا ہے۔ لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ گلیشئرز پگھل رہے ہیں۔ کچھ عرصے تک تو پانی محفوظ رہے گا، مگر مستقبل میں ڈیم خالی ہونا شروع ہو جائیں گے۔ جب پالیسیاں بنائی جاتی ہیں تو پورے ملک کو یکساں طور پر دیکھا نہیں جاتا ہے، ان کو آن بورڈ نہیں لیا جاتا، یہی شکایات ہیں چھوٹے صوبوں کی۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب ’’ کاربن‘‘ کی زیادہ مقدار فضاء میں خارج ہونا، جو فضاء کو آلودہ کر رہا ہے، کاربن کی فضاء میں کثیر مقدار امیر ممالک کی وجہ سے ہے۔ اس آلودگی کا شکار دنیا کے جو چند ممالک ہیں، ان میں ہم بھی شامل ہیں۔ ہمیں اپنی حکومت کا محاسبہ کرنا ہے کہ وہ آنے والی ان مشکلات سے نمٹنے کے لیے جامع پالیسی وضع کرے، دوسری طرف ہم اپنا کیس عالمی فورم پر پیش کریں کہ ہمیں ڈونرز مل سکیں جو ان بحرانوں سے نمٹنے میں ہماری مدد کریں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات