35 C
Lahore
Sunday, July 20, 2025
ہومسائنس اینڈ ٹیکنالوجیجوہر اور جوہری توانائی

جوہر اور جوہری توانائی


یہ ایک جانب دنیا کی تباہی کا باعث ہے تو دوسری جانب خدمت کا وسیلہ ہے، صنعت و حرفت میں بھی اس کے سیکڑوں نئے طریقہ کار زیرِ استعمال آچکے ہیں

یہ دنیا جس میں انسان نے بودو باش اختیار کی ہے وہ مکمل طور پر بنیادی مادّے کی موجودگی سے وابستہ ہے۔ اسی وجہ سے بنی نوع انسان نے ابتدا سے اس کی پوشیدہ حقیقت کو چاک کرنے کے حوالے سے بڑی جدوجہد کی ہے اور یقیناً زندگی کا ایک بڑا حصہ کائناتی ماحول میں موجود مادّے کی غیر مرئی حقائق کو اُجاگر کرنے میں مصروف کار رہا ہے۔

یہاں پر مادّے سے مراد وہ تمام اشیا جو کائنات میں موجود ہے اور جو جگہ گھیرے کمیت (Mass) کا حامل ہو۔ مثلاً چٹان، معدنی شے، لکڑیاں، جنگلات، دھات، ہوا اور پانی یہ مادی اشیا کی ایسی مثالیں ہیں جو ’’غیر ذی روح‘‘(Non Living) ہوتی ہیں۔ یعنی یہ بڑھنے، پیدا کرنے اور خود سے حرکت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جب کہ دوسری طرف درخت، زمین پر رینگنے والے کیڑے، جانور اور انسان ’’ذی روح‘‘ (Living) مادوں کی مثالیں ہیں۔

مادوں کی غیر مرئی حقیقت کو معلوم کرنے کے حوالے سے زمانہ قدیم کے تقریباً ہر تہذیب یافتہ قوم کے ماہرین نے کوشش کی لیکن حقیقت تک رسائی حاصل کرنے میں یونان کے چند فلسفی اور محقیقین نے گراں قدر خدمات انجام دینے میں سر فہرست نظر آتے ہیں۔ 

کیونکہ پہلی مرتبہ یہ انکشاف ہوا کہ کائنات کے تمام مادی اشیاء کی ساخت اور بافت نہایت چھوٹے چھوٹے دانوں سے بنی ہے جسے ’’جوہر یا ایٹم‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہی وہ منزل ہے جہاں سے جوہری تخیلات کا دھندلاسا عکس دنیا کے سامنے روشناس ہوا۔

بیسویں صدی میں جب’’جوہر‘‘ کسی بھی مادی اشیا کا ٹھوس ذرہ تھا ،جس کے بارےمیں یہ تصور تھا کہ یہ غیرمنقسم جسم ہے لیکن دور جدید کی تحقیق و تریج نے اس بات کو عیاں کر دیا ہے کہ ’’جوہر‘‘ ایک خاص بندش اور تعداد کے ساتھ مختلف اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور اس کا مرکز نوات (nucleus)ہوتا ہے، مثبت برقی چارج کا حامل ہوتے ہیں۔ بعض اجزاء ایسے ہوتے ہیں جو منفی چارج کا حامل ہوتا ہے اور بعض پر کوئی چارج نہیں ہوتا۔ 

مرکز کے اطراف منفی چارج کا ایک گروپ ہوتا ہے جو مرکز یعنی نوات (Nucleus) کے گرد ایک راستے (Orbit) پر گردش کر رہے ہیں جو ایک فلکی نظام سے مشابہت رکھتا ہے۔ یعنی جو ہرٹھوس ہونے کے بجائے زیادہ تر خالی فضاء پر مشتمل ہوتے ہیں۔ 

یہی تمام جواہر مجوعی طور پر عنصر کو جنم دیتے ہیں جو ایک مادی شے کی تخلیق کرتا ہے جو عام حالت میں کسی دوسرے مادّے میں تبدیل نہیں ہو سکتے۔ گویا جو ہر کسی بھی عنصر کا سب سے چھوٹے سے چھوٹا ذرہ ہوتا ہے اور ایک خاص کمیت یا وزن رکھتا ہےجواسے دوسرے عنصر کے جوہر سے منفرد رکھتا ہے۔

مثلا :ً ہائیڈ روجن اور آکسیجن وغیرہ ۔ جب دو یا دو سے زیادہ عنا صرکے ’’جوہر” یکجا ہوتے ہیں تو کائنات میں ایک مکمل مادی اشیاء مرکب (Compound) وقوع پذیر ہوتے ہیں دو جوہر ہائیڈروجن اور ایک جوہر آکسیجن کی شراکت سے ’’پانی‘‘ جیسامادّی مرکب نے جنم لیا گویا تمام مادّی اشیا چاہے وہ عنصر ہو یا مرکب ’’جوہر‘‘یعنی Atomسے مل کر بنے ہیں۔

سائنسدانوں نے اندازہ لگایا کہ پن کےسرے برابر کی جگہ میں دس کروڑ سے بھی زیادہ جوہر سما سکتے ہیں، اگر تانبے کے جوہروں کو ایک دوسرے کے ساتھ رکھ کر ان کی قطار بنائیں تو ایک انچ کی لمبائی میں دس کروڑ جوہر سماجائی گے لیکن باریک بینی سے دیکھنے پر بھی کوئی جوہر دیکھائی نہیں دیتا۔ 

اگر طاقتور خوردبین سے دیکھا جائے تو جوہر ایک بڑے روم کے برابر دیکھائی دیتا ہے اور اس کے درمیان میں ایک دھبہ ابھرا ہوا نظر آتا ہے یہ جوہر کا مرکز یعنی ’’نوات‘‘ ہوتا ہے، جس کے گرد مادّے کے جوہر گھومتے دیکھائی دیتے ہیں، یہ ٹھیک اسی طرح آتا ہے، جس طرح نظام شمسی میں سیارے اور سیارچے سورج کے گردش کرتے ہیں۔یہ چھوٹے چھوٹے ٹکرے برقیئے (Electron) ہوتے ہیں۔ 

برق کی شکل میں یہ دھات کے تاروں میں سے گزر سکتا ہے اور ہوا میں آزادانہ بھی رہ سکتا ہے۔ ان برقیوں کی تعداد جوہر کے گرد مطلوبہ راستوں پر گھومتی ہیں۔ ہر عنصر کے جوہر میں برقیوں کی تعداد مساوی ہوتی ہے۔ مثلاً :پور نیم دھات کے تمام جوہروں میں برقیوں کی تعد ادمساوی ہوتی ہے۔ 

یعنی اس میں بانوے (92) بر قیئے ہوتے ہیں۔ یہ منفی چارج ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیس مختلف قسم کے ذرات اس میں جو ہر کی شکل میں شامل ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک پروٹون ہوتا ہے۔ یہ مثبت چارج رکھتا ہے۔ ہر جوہر کےنوات میں متعدد بدیئے پائے جاتے ہیں جن کی تعداد برقیوں کی تعداد کے برابر ہوتی ہے جونوات کے گرد گھومتے ہیں ۔ جوہر کی تمام قسموں میں ایک سے زیادہ بد یئے پائے جاتے ہیں۔ جوہر کے نوات میں ذرّوں کی ایک اور قسم نیوٹرون کی ہوتی ہے۔

چونکہ یہ جو ہرمعتدل یا تعدیلی ( Neutral) ہوتے ہیں اسی وجہ سے اس کا نام عدلیہ رکھا گیا ہے۔ اس میں برقی بار موجو د نہیں ہوتا۔ ہر جوہر کے نوات میں ہلکے اور بھاری ذرّات ہوتے ہیں ۔مثلاً : ہائیڈ روجن جوہر کا شمار ہلکے جوہر میں ہوتا ہے، کیوں کہ اس میں پروٹون اور نیوٹرون موجود نہیں ہوتا لیکن یورینم دھات کے جوہروں کا شمار بھاری دھاتوں میں ہوتا ہے اور جوہری توانائی کے حصول میں ایندھن کا سب بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔

دھاتی جوہر سے چکنی مٹی رتیلے پتھر اور دوسری اشیاء جدا کرنا ضروری ہوتا ہے، پھر اس کچ دھات کو توڑ کر پیستے اور چھان لیتے ہیں، پھر ان کو بھون کر دھو لیتے ہیں، مزید عمل کے بعد ان شیا کی مقدار بہت گھٹ جاتی ہے لیکن اب یہ بڑی حد تک صاف اور خالص ہوتی ہے یہاں پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کچدھات کئی کئی ٹن لئے جائیں تو ان میں سے آخر کار شوخ زرد رنگ کے مادّے کے چند ہی پونڈ حاصل ہوتے ہیں۔ 

اس کے بعد یہ خاکستری مائل سیاہ سفوف کی صورت میں حاصل ہوتا ہے جو یورینیم آکسائیڈ ہوتا ہے ۔ مزیدتخلیص (Purification) کے بعد اسے ایک سبز رنگ کے نمک میں تبدیل کر لیا جاتا ہے جو’’ جو ہر‘‘ یورینیم اورفلورین پر مشتمل ہوتا ہے۔ فلورین مزید تجزیاتی عمل سے گزرنے کے بعد یورنیئم ایک خالص چمک دار بھاری اور چاندی جیسی جوہری شکل میں حاصل ہوتی ہے۔

یہ ’’یورینیم ‘‘ جو ہرکی وہ قسم نہیں ہوتی، جس کو توڑنے سے بہت سی توانائی حاصل کی جاسکے۔ اس کاصرف تھوڑا سا حصہ ہی وہ بیش قیمت یورنیم 235ہوتی ہے، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک پونڈ (one pond) یورینیم سے پندرہ سو (1500) ٹن کوئلے کے برابر توانائی حاصل کی جا سکتی ہے ۔ یورینیم 235 سے مراد اس کے ہرجو ہر میں ایک نوات موجود ہوتا ہے جو 92 پروٹون اور 143 نیوٹرون پر مشتمل ہے۔

اس نوات کو سات مختلف قطروں میں برقیوں کی ایک خاص تعداد گھیرتی ہے جو نوات میں پروٹون کی تعداد (92)کے مساوی ہے۔ یورینیم235کے نوات دوسروں کی بہ نسبت زیادہ کس کر بندھے ہوتے ہیں اور جوہری ٹکڑوں کے بعض جوڑ ایک دوسرے کے ساتھ بہتر طور پر جڑے ہوتےہیں اور یہ بات درست بھی معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ بعض جوڑ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے توڑے پھوڑے جاسکتے ہیں۔

ان جوہروں کے نواتوں کو پھاڑنے کے لئے جو ہر شکنوں میں موجود جو ہروں کے حصوں کی مدد حاصل کرنی ہوگی ۔مثلاً :پروٹون ،نیوٹرون اور الیکٹرون سے کام لیا جا تا ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے ذرّے ہدف پر ایسی برق رفتاری سے برسائے جاتے ہیں، جس سے یہ ذرّے جو ہروں کے نواتوں میں گھس جاتے اور اکثر اوقات تو نواتوں کو ہر طرف بکھیردیتے ہیں۔ جب کسی نوات میں باہر سے ذرّات جذب ہو جائیں یا اس کے اندرونی ذرّات باہر نکل آئیں تو اس سے مراد جوہر کو پھاڑ دیا گیا ہے۔

یعنی اس پراسرار قوت پر جو نوات کے اجزا کو ایک دوسرے سے منسلک رکھتی ہے فتح پالیا گیا ہے جوہر کے قلب کو دو تقریباً مساوی حصوں میں پھوڑنےکا عمل ’’انشقاقــ‘‘ (Fission) کہلاتا ہے ، یہ بات اس طرح سمجھ میں آسکتی ہے کہ جوہر گھڑی کی کسی مضبوطی سےلپٹی ہوئی کمانی کی طرح ہے جو ایک قوت روک سے اپنی اصلی حالت میں قائم رہتی ہے جیسے ہی یہ روک ہٹادی جائے کمانی بہت زور سے کھل جاتی ہے اور اجزا پوری قوت سے منتشر ہوجاتی ہے۔

فی الحال جوہری توانائی کا اس طرح اخراج’’یورینیم‘‘ جیسی بھاری جوہری عناصر تک محدود ہے، حقیقت بھی یہی ہے کہ بعض جوہری نوات دوسروں کے مقابلے زیادہ آسانی سے توڑنے جاسکتے ہیں اور بعض خود بخود دفعتہً پھٹ جاتے ہیں یہ تابکار جوہر ہوتے ہیں، جب تابکار جوہر قدرتی طور پر پھٹتے ہیں یا جب انسان ان کو پھوڑتا ہے تو ان کے نواتوں کے ساتھ وابستہ توانائی کا کچھ حصہ حرارت اور شعاعیں خارج کرتا ہے یہی توانائی ’’جوہری تو انائی‘‘ کہلاتی ہے۔

پہلے پہل جوہری توانائی کا استعمال تباہی اور تخریب کاری کی علامت کے طور پر سامنے آیا لیکن دور جدید میں دنیا نے تعمیری پہلوؤں کو بھی وسیلہ بنا کر متعارف کروایا ہے۔ جہاں تک جوہری توانائی کی تباہ کن اثرات کا تعلق ہے تو گذشتہ عالمی جنگ کے دوران اس وقت سامنے آیا جب امریکا نے اگست 1945ء کے اوائل میں جاپان کے دو شہروں یعنی ہیرو شما اور ناگاساکی پر جوہری بم داغ دیا۔ 

ان دو بموں سے کئی لاکھ‎ افراد ہلاک ہوئے اور دیگر زخمی یا ضرر رسیدوں کی تعداد چار لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ یہ دونوں شہر مکمل طورپر تباہ ہوگئے۔ ہر بم میں بیس ہزار ٹن ’’ٹی این ٹی ‘‘ سے زیادہ طاقت تھی۔ گذشتہ 25 سالوں میں جوہری بم سازی کے فن میں خوفناک ترقی ہوئی ہے، جس کی بنیاد پر آج ایسے بم بنائے جاسکتے ہیں، جس کی طاقت کئی لاکھ ٹن ٹی این ٹی سے کہیں زیادہ ہے اور ماہرین کے مطابق جو دس پندرہ لاکھ آبادی کے شہر کو پلک جھپکتے ہی صفحہ ہستی سے مٹا سکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف اس سے تعمیری کام بھی لیا جا رہا ہے۔

چناں چہ آج کل جوہری مزرعے Atomic Farm دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ،جس سے کاشتکاروں کو ایسی معلومات حاصل ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سےکم لاگت سے زیادہ غذا پیدا کر سکتےہیں۔ موجودہ دور میں جوہری کاشت کاری پر جتنا کام ہو رہا ہے وہ بڑے بڑے تحقیقی ادارے انجام دے رہے ہیں۔

کاشت کار انفرادی طور پر تاب کار جوہروں سے کام نہ لیں گے بلکہ وہ ان امور سے فائدہ اٹھائیں گے جو تحقیقات کرنے والے ادار ے ان قوت سے کام لے کر دریافت کریں گے۔ صنعت و حرفت میں بھی سیکڑوں نئے طریقہ کار زیر استعمال آچکے ہیں، تاکہ کم لاگت سے بہتر کام لیا جا سکے۔ آبدوزوں کے ذریعہ جوہری توانائی سمندر میں بھی جا پہنچی ہے۔ 

لیکن 1930ء کے بعد جب جو ہر شکنی کا عمل متعارف ہوا تو طب کے میدان میں بڑی فوقیت حاصل ہوئی۔ مثلاً : جسم میں جب خلیے قدرتی ترتیب کے بجائے بے ترتیب اور بے قابو ہوکر افزائش پانے لگیں تو اسے سرطان کا نام دیا جاتا ہے۔ جوہری اشعاع سے نہ صرف سرطان کے خلیے بلکہ دوسرے متاثرخلیے بھی تلف ہو جاتے ہیں۔ 

چونکہ سرطان کے خلیے سرعت سے بڑھتے ہیں اسی وجہ انسانی جسم کے دوسرے خلیوں کے بہ نسبت شعاعوں سے زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی لئے جوہری دھماکوں سے خارج ہونے والی شعاعیں سرطان کے علاج میں کثرت سے استعمال کی جارہی ہیں۔

ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے جب جوہری طاقت گاہوں سے برقی طاقت ایسے مقامات کو بھی مہیاہو سکے گی جہاں ایندھن بالکل نایاب ہے۔ آفت زدہ علاقوں کو برق مہیا کرنے کے لئے بھی چھو ٹے چھوٹے نصیحتوں سے کام لیا جا سکتا ہے۔ عین ممکن ہے جوہری توانائی کل گھروں میں اجالا کرے۔ کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی کے چکروں کو گھمائے اور بھی مختلف طریقوں سے سہولت مہیا ہو۔

جسے دیکھ کر انسان دنگ رہ جائے۔ اس کے علاوہ جوہری توانائی ملک کی حفاظت (توازن طاقت کے حوالے سے) میں بہت کچھ کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن موجودہ بین الااقوامی حالات نےاور جوہری توانائی کی ترقی نےخطے میں پیچید مسائل پیدا کر دیئے ہیں۔ اگر ان حالات پر قابو نہیں پایا گیا تو دنیا ایک بار پھرجو ہر ی جنگ کی لپیٹ میں آجائے گی اور جمہوریت کے مستقبل کو بھی خطرہ لاحق ہیں،جن کا سد باب جمہوریت کے علمبرا رہی کر سکتے ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات