34 C
Lahore
Sunday, July 20, 2025
ہومقومی خبریںسینیٹ الیکشن میں ایک مرتبہ پھر ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ پیدا ہوگیا

سینیٹ الیکشن میں ایک مرتبہ پھر ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ پیدا ہوگیا


21 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں امیدواروں کو بلا مقابلہ منتخب کراونے کے لیے حکومت اور اپوزیشن میں معاہدہ طے پایا ہے تاہم ناراض امیدواروں کی جانب سے کاغذات واپس نہ لینے پر انتخابات میں ایک مرتبہ پھر ہارس ٹریڈنگ اور اراکین اسمبلی کی جانب سے پارٹی پالیسی کے خلاف دوسرے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ کا ہونا کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی سینیٹ انتخابات میں دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دے چکے ہیں۔

2018 کے سینیٹ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اکثریت ہونے کے باوجود اپنے عددی تناسب کے مطابق سینیٹ کی نشستیں نہیں جیت سکی تھی۔ پی ٹی آئی کا امیدوار الیکشن ہار گیا تھا۔ جبکہ پیپلز پارٹی صرف سات اراکین اسمبلی کی بدولت سینیٹ کی دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔

پی ٹی آئی کے 19 اراکین اسمبلی نے مخالف جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دیے تھے جس پر ان کو بانی پی ٹی آئی کے حکم پر پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔

خیبر پختوںخوا میں 21 جولائی کو ہونے والے سینیٹ انتخآبات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن نے امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کروانے کے لیے معائدہ کیا جس کے تحت 6 نشتیں حکومت اور 5 اپوزیشن کو ملیں گی تاہم عرفان سلیم سمیت پی ٹی آئی کے ناراض امیدواروں کی جانب سے پارٹی قیادت کی ہدایت کے باوجود کاغذات نامزدگی واپس نہ لینے پر خفیہ بیلیٹ کے ذریعے امیدواروں کا چناؤ ہوگا جس سے نہ صرف ایک مرتبہ پھر ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے بلکہ اراکین اسمبلی ناراض امیدواروں کو بھی ووٹ پول کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب چئیرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ ناراض امیدواروں نے کاغذات واپس نہ لیے تو پارٹی ڈسپلن کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ 



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات