پشاور:
پشاور ہائی کورٹ نے کوہستان مالیاتی اسکینڈل میں رضاکارانہ طور پر رقم واپسی کے لیے درخواست دینے کے باوجود ملزم کی گرفتاری کے خلاف دائر رٹ پٹیشن پر قومی احتساب بیورو (نیب) حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ اور جسٹس فرح جمشید پر مشتمل بنچ نے محمد ریاض کی رٹ پر سماعت کی اور دوران سماعت ان کے وکیل امین الرحمان یوسفزئی ایڈوکیٹ نے بتایا کہ کوہستان اسکینڈل سے متعلق نیب تحقیقات کررہا ہے۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اس حوالے سے نیب کے کال اپ نوٹس پر ان کا مؤکل بھی پیش ہوا اور انہیں بتایا گیا کہ اگر وہ پلی بارگین کرنا چاہتا ہے تو رضاکارانہ طور پر واپسی کی درخواست دے۔
ملزم کے وکیل نے بتایا کہ انہوں نے 16مئی 2025کو درخواست دی جبکہ 2جولائی 2025کو اسے ایک اور کال اپ نوٹس جاری کرکے اسے طلب کیا گیا۔
امین الرحمان ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اس دوران ان کا مؤکل 11جولائی کو جب پیش ہوا تو انہیں حراست میں لیا گیا اور 16مئی 2025کی درخواست پر فیصلہ کرنے ے بجائے گرفتار کیا گیا اور اسے شدید ذہنی اذیت دی گئی۔
وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کے مؤکل کو احتساب عدالت میں پیش کرکے اس کی 8 روز کی جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کی گئی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 2022 میں ہونے والی ترمیم کے بعد سیکشن 24کے تحت صرف اس ملزم کو گرفتار کیا جاسکتا ہے جو نیب کے سامنے پیش نہ ہو رہا ہو، ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہا ہو، پراسیکیوشن ریکارڈ میں ٹمپرنگ کررہا ہو یا وہ جرم دوبارہ کررہا ہو تب ہی اسے گرفتار کیاجاسکتا ہے۔
وکیل نے کہا کہ قانون کے مطابق پہلے ان کی درخواست پر فیصلہ لازمی ہے لیکن انہیں گرفتار کیا گیا جس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نیب نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے لہٰذا گرفتاری کو غیرقانونی قراردےکر انہیں رہا کیا جائے۔
پشاور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے ابتدائی دلائل کے بعد نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مزید سماعت 29 جولائی تک ملتوی کردی۔