کراچی:
کراچی کے عوام کو کچرا کنڈی عام شاہراہوں اور گلی کوچوں میں ہونے کی وجہ سے مسلسل گندگی اور غلاظت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، خاص طور پر بارشوں کے موسم میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات کی وجہ سے عوام کی زندگیاں اجیرن ہے۔
مون سون کے دوران شاہراہوں اور گلیوں میں گندے پانی کے جمع ہونے جبکہ سیوریج لائنوں کے بند ہونے کی وجہ سے شدید تعفن کا بھی سامنا رہتا ہے، غیر سائنسی بنیادوں پر کچرا ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی سے بھی ماحول شدید متاثر ہو رہا ہے اور تاحال کچرا سائنسی بنیادوں پر ایک سے دوسری جگہ منتقلی کا بھی بندوبست نہیں کیا جا سکا، یہی وجہ ہے کہ مون سون میں گندگی، غلاظت میں جنم لینے والی مکھیاں اور مچھر کھانے پینے کی اشیاء کو آلودہ کر دیتی ہیں جس کے سبب لوگوں کو ڈائیریا، ہیضہ، ڈائسینٹری سمیت پیٹ کی مختلف بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔
ماہر حشریات کا کہنا ہے کہ ان کچرا کنڈی سے پیدا ہونے والی غلاظت میں مکھیوں، مچھروں اور دیگر اقسام کی الرجی اور بیماریاں پیدا کرنے والے کیٹروں کی تیزی سے نشوونما ہوتی ہے جو براہ راست انسانی صحت کومسلسل متاثر کرتی ہے۔ مکھیوں کی پانچ اقسام ہوتی، شہر میں مکھیوں، مچھروں اور دیگر امراض کا سبب بننے والے مکھیوں، مچھروں اور کیٹروں کے خاتمے کے لیے جراثیم کش ادویات اسپرے بھی نہیں کیا جاتا، یہی وجہ ہے کہ کراچی سمیت صوبے میں ہر سال ہر موسم میں مختلف امراض مسلسل جنم لے رہے ہیں اور عوام براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔
ماہر حشریات (Entomologist) پروفیسر نوید رب صدیقی نے بتایا کہ مون سون کے موسم کے دوران گندگی اور غلاظت میں جنم لینے والی مکھیاں اور مچھر کھانے پینے کی اشیاء کو آلودہ کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے لوگوں کو ڈائیریا، ہیضہ، ڈائسینٹری سمیت پیٹ کی مختلف بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ مون سون مکھیوں کی افزائش کا سیزن ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نوید رب صدیقی نے ایکسپریس ٹربیون کے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ کراچی میں مکھیوں کی پانچ مختلف اقسام ہیں، ان میں House fly، Drain Fly، Flash Fly، Blue Bottle Fly، Green Bottle Fly شامل ہیں، یہ مکھیاں نمی اور خاص طور پر مون سون کے موسم میں آتی ہیں کیونکہ یہ پھلوں کی کاشت کا موسم ہوتا ہے، اسی مون سون کے موسم میں پھل اور سبزیان اور کھانے پینے والی اشیاء زیادہ سڑتی ہیں اور یہ مکھیاں ان کھانے پینے کی اشیاء پر افزائش کرتی ہیں اور ان پر انڈے دیتی ہیں اور اسی سے اپنی خوراک حاصل کرتی ہیں، House Fly تین سے چار دن کے وقفے سے تقریباً 500 انڈے دیتی ہیں اور ان انڈوں سے ایک ماہ میں مکھیاں مکمل تیار ہو جاتی ہیں، مکھیوں کی لائف دو سے تین ہفتے تک ہوتی ہے اور ایک ماہ کے اندر اندر یہ مکھیاں مر جاتی ہیں۔ ان کی پیدائش ان کی اموات سے زیادہ ہے اس لیے ان کی تعداد بہت زیادہ نظر آتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مون سون کا موسم مکھیوں کے لیے بریڈنگ کا موسم ہوتا ہے، یہ مکھیاں اپنی غذائیت منہ کے ذریعے حاصل کرتی ہیں اور منہ کے ذریعے غذائی مادوں کو جذب کرتی ہیں، غذائی مادوں کے ساتھ جراثیم بھی ہوتے ہیں جو ان مکھیوں کے منہ اور ٹانگوں کے ذریعے کھانے پینے کی اشیاء تک آجاتے ہیں جس کی وجہ سے کھانے پینے کی اشیاء آلودہ ہو جاتی ہیں جس کے نتیجے میں Diarrhea، Dysentary، Cholera سمیت پیٹ کی مختلف بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔
ڈاکٹر نوید نے کہا کہ کراچی میں کچھ مکھیاں ایسی ہیں جو خون پیتی ہیں اور یہ مکھیاں زیادہ تر ساحلی علاقوں میں پائی جاتی ہیں جبکہ یہ مکھیاں شہری علاقوں میں نہیں ہوتی۔ شہری علاقوں کی مکھیوں کی غذاء کاربو ہائیڈریٹس اور اسٹارچ ہوتا ہے۔ یہ مکھیاں پھلوں اور سبزیوں پر زیادہ بیٹھتی ہیں جوکہ مکھیوں کی افزائش کے لیے بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔ مکھیوں کے انڈوں سے لاروے نکلتے ہیں جن سے دو ہفتے کے اندر مکھی تیار ہو جاتی ہے اور وہ ہمارے ماحول میں آجاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کراچی میں مون سون کے ساتھ ڈینگی اور ملیریا کے مادہ مچھروں کے انڈوں سے مچھروں کی افزائش نسل شروع ہوگئی ہے، ڈینگی اور ملیریا کا موسم اگست سے دسمبر کے وسط تک جاری رہتا ہے، ہر سال ان مادہ مچھروں کے انڈوں سے لاروے نکلنے کا بہترین موسم بارشوں میں ہوتا ہے، انڈوں سے نکلنے والے لاروے کو مچھر بننے تک انسانی خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ مون سون کا یہ موسم ڈینگی اور ملیریا کا موسم بھی کہلاتا ہے کیونکہ مادہ مچھروں کے انڈوں سے لاروے اس وقت نکلنا شروع ہوتے ہیں، جب زمین نم ہوتی ہے اور مادہ مچھر کے انڈے زمین پر ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت کراچی سمیت سندھ بھر میں بارشیں جاری ہیں، بارشوں کے باعث کئی علاقوں میں گلیوں اور سڑکوں پر بارش کا صاف پانی جمع ہوتا ہے، جو ڈینگی کا سبب بنتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان مچھروں کے خاتمے کے لیے جراثیم کش ادویات اسپرے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ماہر فزیشن ڈاکٹر آفتاب حسین نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں مون سون کے آغاز کے ساتھ ہی ڈینگی کا سبب بننے والے مچھروں اور مکھیوں کی بہتاب شروع ہو جاتی ہے، مچھروں کی وجہ سے ڈینگی اور ملیریا جبکہ مکھیوں کی وجہ سے ہیضے کا مرض جنم لیتا ہے، محکمہ صحت سمیت صوبائی اور مقامی حکومتوں کی سطح پر بارشوں کے پانی کی نکاسی اور ڈینگی کے خاتمے کے لیے تاحال اسپرے مہم شروع نہیں کی جا سکی ہے۔
انہوں ںے کہا کہ کراچی میں گزشتہ 4 برسوں سے ڈینگی اسپرے کے خاتمے کے لیے محکمہ صحت کوئی قابل ذکر اقدامات کرنے میں ناکام نظر آیا، 2020 سے اگست 2024 تک سندھ بھر میں ڈینگی کے 37 ہزار سے زائد ڈینگی کے کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ 4 سال میں ڈینگی وائرس کی وجہ سے 96 افراد جاں بحق ہوئے، ڈینگی کے خاتمے کے لیے حکومتی اداروں کے درمیان رابطے کا فقدان ہے۔
ماہرین صحت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر 2025 کے آنے والے دنوں میں ڈینگی کے خاتمے کے لیے کوئی مؤثر مہم نہ چلائی گئی تو دسمبر 2025 تک سندھ بھر میں ڈینگی کا مرض خطرناک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ سندھ بھر میں سرکاری اسپتالوں میں ڈینگی کے وارڈز تاحال فعال نہیں ہیں جبکہ نجی استپالوں میں ڈینگی کا علاج بہت مہنگا جو غریب آدمی کے بس سے باہر ہے۔
سال 2020 سے 2024 تک کے مچھروں سے متاثر اور ہلاک ہونے والوں کے اعدادوشمار بھی جاری کیے گئے ہیں۔
محکمہ صحت کے ویکٹر بون ڈیزیز کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق کراچی سمیت سندھ میں 2020 میں 4 ہزار 318 افراد ڈینگی وائرس سے متاثر ہوئے اور 3 افراد اس وائرس کا شکار ہوکر جاں بحق ہوئے، 2021 میں 6 ہزار 739 افراد وائرس کا شکار ہوئے اور اس وائرس نے 28 افراد کی جان لے لی۔
اس کے باوجود کراچی سمیت سندھ بھر میں مچھر مارنے کی اسپرے مہم شروع نہیں کی گئی جس کے نتیجے میں 2022 میں ڈینگی وائرس نے شدت اختیار کی اور 22 ہزار 274 افراد وائرس کا شکار ہوئے جبکہ 64 افراد اپنی جان سے گئے، 2023 میں ڈینگی سے 2800 افراد اس وائرس کا شکار ہوئے جبکہ کوئی اموات نہیں ہوئی۔
اس طرح، سال 2024 سے اب تک ڈینگی کے 892 کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں جبکہ ایک مریض جاں بحق ہوا تھا جس کا تعلق کراچی کے ضلع وسطی سے تھا۔
کراچی کے ضلعی ہیلتھ افسران کا کہنا ہے کہ فیومیگیشن کے لیے ہمارے پاس ویکٹربون ڈیزیز کا عملہ ناکافی ہے، یہ عملہ انتظامی طور پر ضلعی ہیلتھ افسران کے ماتحت نہیں ہوتا، ہر ضلع میں ایک سے دو اہلکار تعینات ہیں جو کراچی میں اسپرے مہم کے لیے ناکافی ہیں۔
ویکٹر بورن ڈیزیز میں شامل ڈینگی کنٹرول پروگرام کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مشتاق شاہ کا کہنا ہے کہ ہم ضلعی ہیلتھ افسران مقامی حکومتوں کو مچھروں کے خاتمے اور مادہ مچھروں کے انڈوں سے نکلنے والے لاورے کے خاتمے کے لیے فنی امداد فراہم کرتے ہیں، اسپرے مہم ضلعی ہیلتھ افسران کے ماتحت ہوتی ہے اور اسپرے مہم کے آغاز کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں اور کئی علاقوں میں اسپرے مہم شروع کر دی گئی ہے۔
ڈاکٹر مشتاق شاہ نے کہا کہ ڈی ایچ اوز کے ساتھ مل کر ڈینگی کے خاتمے کے لیے اسپرے مہم شروع کر دی گئی ہے۔ محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈینگی سے بچاؤ کے لیے سرکاری اسپتالوں میں وارڈز اور دیگر سہولیات کے بتدریج فعال کیا جا رہا ہے۔