2022ء کے بعد سے اسرائیلیوں کے ہاتھوں مارے جانے والے امریکی شہریوں پر امریکی حکومت کا ردعمل کیسا رہا؟
عرب میڈیا کے مطابق گزشتہ دنوں ایک امریکی شہری سیف اللّٰہ مسلط کو اسرائیلی آبادکاروں نے مقبوضہ مغربی کنارے میں تشدد کا نشانہ بنایا اور وہ شہید نہیں ہوگیا، سیف اللّٰہ کے رشتے داروں کا مطالبہ ہے کہ امریکا اس حوالے سے خود تحقیقات کا آغاز کرے۔
اس معاملے میں امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل پر زور دیا گیا کہ وہ اس حوالے سے جلد تحقیقات کرے۔
امریکی صدر نے اپنے بیان میں کہا، ’میں نے اسرائیل میں امریکی سفیر کو کہا ہے کہ وہ اس جرم اور اقدامِ دہشت گردی کرنے والوں کو انصاف کے کٹھرے میں ضرور لائیں‘۔
یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہے کہ صدر کے بیان کے بعد امریکی انتظامیہ نے اپنے شہری کو انصاف دلانے کے لیے کیا کیا؟
اسی طرح کا ایک اور معاملہ 78 سالہ عمر اسد کے ساتھ پیش آیاد، یہ فلسطینی امریکن شہری مغربی کنارے میں اپنے دوست سے ملکر آرہا تھا تو اسرائیلی فوجیوں نے اس کو چیک پوسٹ پر روکا، عمر اسد کے اہل خانہ کے مطابق عمر اسد کو اسرائیلی فوجیوں نے گاڑی سے گھسیٹ کر باہر نکالا گیا پھر ہتھکڑی لگاکر ایک زیرتعمیر سرد جگہ پر مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
عمر اسد کے معاملے پر سابقہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو کہا کہ وہ اس حوالے سے واقعے کی کرمنل انوسٹیگیشن کرے، جبکہ عمر اسد کے اہل خانہ اور قانون سازوں کا مطالبہ تھا امریکا خود اس معاملے کے تحقیقات کرے لیکن یہ مطالبہ کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا کیونکہ اسرائیل اپنے فوجیوں کے کیے ہوئے کسی بھی کام کی کرمنل انوسٹیگیشن نہیں کرتا۔
بعد میں بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسی اسرائیلی فوجی بٹالین نٹزاہ یہودہ کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے سے انکار کردیا جو فلسطینوں کے خلاف مغربی کنارے پر بدتمیزی اور توہین کے لیے بدنام تھی۔
جیکب فلیکنجر جو ورلڈ سنٹرل کیچن نامی ادارے میں امدادی کارکن کے طور پر کام کرتے تھے اور ان کے پاس کینیڈا اور امریکا کی شہریت بھی تھی، یکم اپریل 2024 کو انکی عمر 33 سال تھی جب اسرائیلی فضائ حملے میں قتل ہوگئے، جس پر اس وقت کی امریکی صدرنے اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ اس واقعے کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں، مگر اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہونے معاملے کو المناک حادثہ قرار دے دیا، اس معاملے پر 2 افسران کو سروس سے برخاست کیا گیا لیکن کوئی کرمنل کیس نہیں بنا۔
اس کے بعد سے اب تک اسرائیل ورلڈ سینٹرل کچن کے کئی رضاکاروں کا خون کرچکا ہےجن میں کئی فلسطینی بھی شامل ہیں۔