34 C
Lahore
Friday, July 18, 2025
ہومغزہ لہو لہوچند عجب باتیں چند عالمی سرمایہ داروں کی

چند عجب باتیں چند عالمی سرمایہ داروں کی


شمالی امریکا اور مغربی ممالک میں جدید ترین ٹیکنالوجی کی ایجادات نے مغرب میں انتہائی بڑے سرمایہ داروں کی نئی نسل اور کھیپ بھی پیدا کی ہے ۔ اِن ارب پتی مغربی سرمایہ داروں کی تعداد قلیل سی ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ تاریخِ انسانی میں کبھی چند ممالک نے اتنے بڑے سرمایہ دار پیدا نہیں کیے ۔ اِن سرمایہ داروں نے یہ دولت خالصتاً اپنی محنت سے کمائی ہے ۔

اِس میں حرام، مکاری اور جھوٹ کی کمائی کی آمیزش کم کم بتائی جاتی ہے ۔ ہمارے ظاہری و خفی حکمرانوں کی طرح ہمارے سرمایہ دار بھی یکساں لالچ اور لوبھ کا شکار ہیں ۔ دونوں طبقات ایک ہی مرض کا شکار ۔ اِس مرض نے ہمارے سرمایہ داروں میں خوف پیدا کررکھا ہے ۔سادگی اِن سے کوسوں دُور جا چکی ہے ۔ وہ مختلف النوع حصاروں میں گھر چکے ہیں ۔ مغربی سرمایہ دار مگراِس خوف سے آزاد ہیں ۔ وہ عام معاشرے میں جذب ہو کر رہتے ہیں ۔

مثال کے طور پر وارن بوفے (t Warren Buffet) کی زندگی ہی پر ایک نظر ڈال لیجئے ۔ امریکی ریاست ، نبراسکا، کے شہر، اوماہا، میں رہائش پذیر94 سالہ وارن بوفے دُنیا کے امیر ترین ، ارب پتی افراد میں سے ایک ہیں ۔ اُن کی دولت 133ارب ڈالر بتائی جاتی ہے ۔ اگلے روز اُنھوں نے ایک امریکی جریدے کو انٹرویو دیتے ہُوئے خوش دِلی سے کہا:’’ میرے ایک طرف 100ڈالر کا مہنگا کھانا رکھا ہو اور دوسری طرف 10ڈالر مالیت کا سادہ سا برگر ہو، مَیں دس ڈالر مالیت کا برگر کھانا ترجیح دُوں گا۔سو ڈالر کا مہنگا کھانے کی بھلا ضرورت ہی کیا ہے؟۔‘‘

وارن بوفے صاحب کی دریا دِلی کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اُنھوں نے اپنی بے بہا دولت کا99فیصد حصہ امریکی تعلیمی اداروں ، تجربہ گاہوں، اسپتالوں ، یتیم خانوں اور دیگر فلاحی ورفاحی کاموں کے لیے وقف کررکھا ہے ۔ وہ کہتے ہیں:’’ مَیں فینسی کپڑوں کا شوقین نہیں ۔ مجھے اچھا لگتا ہے کہ مَیں سادہ سی خاکی جینز کی پتلون اور سادہ سی شرٹ میں کام کروں ، سیر کروں ،ایسے ہی لباس میں اپنی کمپنیوں کے اسٹاف سے میٹنگز کروں ۔ مَیں روزانہ8گھنٹے سوتا ہُوں۔ آئس کریم کھاتا اور کوک پیتا ہُوں۔برِج کھیلتا ہُوں اور ہر ماہ نئی 4کتابیں ختم کرتا ہُوں۔‘‘

وارن بوفے صاحب کسی بیش قیمت اور وسیع و عریض مینشن میں نہیں رہتے ۔ وہ آج بھی اُسی سادہ سے گھر میں رہائش پذیر ہیں جسے اُنھوں نے 1958میں 32ہزار ڈالرز میں خریدا تھا ۔ آج اِس گھر کی مالیت تین لاکھ 38ہزار ڈالر لگائی جاتی ہے ۔ امریکی ریئل اسٹیٹ میں یہ ایک معمولی سے گھر کی قیمت ہے۔ وارن بوفے مگر اِسی میں خوش اور مطمئن ہیں ۔وہ آج بھی بارہ سال پرانی سادہ سی کیڈلک گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہُوئے اپنے شہر میں گھومتے نظر آتے ہیں ۔

اُن کے آگے پیچھے کوئی مسلّح محافظ ہوتا ہے نہ کوئی باڈی گارڈ۔اُن کے گھر پر بھی کوئی گارڈ پہرہ دیتا نظر نہیں آتا۔وارن بوفے صاحب نے چونکہ اپنی تقریباً ساری ہی دولت رفاحی کاموں کے لیے وقف کررکھی ہے، اس لیے وہ اپنی کمپنیوں کی طرف سے ماہانہ صرف 8ہزار ڈالر کا خرچہ لیتے ہیں ۔ وہ تقریباً ہر روز اپنے شہر میں اور اپنے گھر کے قریب پڑنے والے ایک مشہور ریسٹورنٹ میں ناشتہ اور لنچ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اِس ریسٹورنٹ میں مزدور بھی کھانا کھاتے ہیں ، طلبا بھی ، محنت کش بھی اور دیگر بھی ۔ کوئی پہچان ہی نہیں سکتا کہ فلاں میز پر بیٹھا وارن بوفے دُنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہے۔

 کیا ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان ، جسے اسلام کا قلعہ بھی فخریہ کہا جاتا ہے ، کا کوئی سرمایہ دار اور دولتمند شخص یوں آزادانہ ، کسی محافظ کے بغیر کسی عام سے ریستوران میں کھانا کھانے کی جسارت کر سکتا ہے؟ حیرانی کی بات ہے کہ انسان ، سماج اور ملک و قوم کے لیے ہر اچھی اور قابلِ فخر مثال عالمِ مغرب ہی سے کیوں آ رہی ہے ؟ ہم بحیثیتِ قوم ، ملک اور سماج کیوں بانجھ بن گئے ہیں ؟ ایک انٹرویو میں وارن بوفے نے کہا ہے : ’’مَیں اپنی کمپنیوں میں کام کرنے اور نئے آنے والوں سے کبھی یہ نہیں پوچھتا کہ اُنھوں نے کس مشہور یونیورسٹی یا کالج سے کونسی ڈگری حاصل کررکھی ہے ۔ اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بزنس مائنڈ قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے ۔ اور مجھے اپنی کمپنیوں میں فطری بزنس مائنڈ رکھنے والوں کی ضرورت ہے ۔ وہی میرے بزنس کو آگے بڑھا رہے ہیں۔‘‘

اِسی طرح ایلون مسک(Elon Musk) بھی آجکل دُنیا بھر میں مشہور ہیں ۔ وہ دُنیا کے سب سے دولتمند شخص ہیں۔ اِسی ناتے سے وہ امریکا سمیت دُنیا کے کئی مغربی ممالک کو للکار رہے ہیں ۔ وہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کی حکومت میں مرکزی حیثیت اختیار کر چکے تھے ، مگر اب دونوں میں دُوریاں پیدا ہو چکی ہیں ۔بلکہ کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ کو اگر دُنیا میں کسی شخص سے خطرہ ہے تو وہ ایلون مسک ہی ہیں ۔

ایلون مسک کہتے ہیں کہ اگر امریکا کو ، ڈونلڈ ٹرمپ، کے تحت ترقی کرنی ہے تو امریکی وفاقی حکومت کے ہر چھوٹے بڑے ملازم کو ہر ہفتے ای میل کی شکل میں اپنی ہفتہ وار کی کارکردگی پیش کرنا ہوگی ، بصورتِ دیگر ملازم صاحب خود کو ملازمت سے محروم سمجھیں ۔ ایلون مسک کے اِس حکم نامے کے خلاف واشنگٹن میں سخت ردِ عمل اور ناراضی پائی جارہی تھی ۔ اب مگر حالات بدل چکے ہیں۔ایلون مسک کے والد (Errol Musk) نے اگلے روز ایک انٹرویو میں کہا:’’ ایلون کیا جانے غربت کیا شئے ہوتی ہے ۔ یہ تو میرے گھر میں سونے کا چمچ لے کر پیدا ہُوا تھا ۔ یہ کالج پہنچا تو مَیں نے اِسے22ہزار ڈالر نقد تحفے میں دیے ۔‘‘ ایلون مسک نے پلٹ کر کہا:’’ میرا والد جھوٹ بولتا ہے ۔ یہ اپنی پہلی بیوی (ایلون کی والدہ) کے اخراجات تو پورے کر نہیں سکا، مجھے اِس نے کہاں سے22ہزار ڈالر نقد دینا تھے ؟۔‘‘

ایلون مسک کے والد کانکنی اور قیمتی پتھروں کے کاروبار سے وابستہ رہے ہیں ۔ اپنے والد بارے مسک کا لہجہ ہمیں عجب لگتا ہے لیکن مغرب کے انداز ہماری معاشرت سے مختلف ہے ۔ اِسی طرح کے ایک اور امریکی سرمایہ دار اور انتہائی دولتمند شخص رے ڈالیو (Ray Dalio)بھی ہیں ۔

وہ امریکا سمیت مغربی ممالک میں سرمایہ کاری کے میدان میں بڑی شہرت کے حامل ہیں ۔ سرمایہ کاری کیسے کی جائے ، اپنی دولت کو مفید اور نفع بخش کاروبار میں کیسے انویسٹ کیا جائے ، کاروباری خساروں سے کیسے بچا جائے ، ان موضوعات پر رے ڈالیو نے تین بڑی ہی مشہورِ عالم کتابیں تصنیف کر رکھی ہیں ۔ رے ڈالیو مگر آجکل بڑے پریشان ہیں کہ نئے امریکی پود کا کیا بنے گا؟ یہ تو بہت ہی نالائق ثابت ہو رہی ہے ۔ اگلے روز موصوف نے اپنے اضطراب کا اظہار اپنے ایک انٹرویو میں یوں کہا:’’ 60فیصد امریکیوں کے مطالعہ کی استعداد چھٹی جماعت کی سطح سے زیادہ نہیں ہے ۔ تعلیمی معیار گرنے کی وجہ سے امریکی معیشت ، سیاست اور معاشرت سب شدید متاثر ہُوئے ہیں۔‘‘

ایک دولتمند شخص کی مستحسن مثال ہمارے ہمسائے، بھارت، سے بھی آئی ہے ۔ شاہ رُخ خان بھارت کے ممتاز ترین اور متمول ترین اداکار ہیں۔ بھارتی فلم انڈسٹری کے سُپر اسٹار ۔بھارتی اخبار (ہندوستان ٹائمز) کو انٹرویو دیتے ہُوئے اگلے روز شاہ رُخ خان کی زندگی کے ایک روشن رُخ کی جانب اشارہ کرتے ہُوئے بھارتی ہدائیت کارہ ،رینو چوپڑہ ، نے کہا:’’ جب میرے آنجہانی شوہر، روی چوپڑہ، کے واقف کار اور دوست نے میرے بیٹے کو نئی فلم (اتفاق) بنانے کے لیے قرض دینے سے انکار کر دیا تو یہ شاہ رُخ خان تھے جنھوں نے مجھے کروڑوں روپیہ فلم بنانے کے لیے دے دیا ۔ فلم منافع میں کامیاب رہی ۔ مَیں سُود اور بیاج سمیت قرض کی رقم واپس کرنے شاہ رُخ خان صاحب کے گھر گئی اور رقم اُن کے سامنے رکھ دی ۔ اُنھوں نے اصل رقم تو لے لی لیکن سُود کی رقم لینے سے انکار کردیا ، یہ کہہ کر کہ یہ میرے لیے حرام ہے ۔‘‘



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات