32 C
Lahore
Friday, July 18, 2025
ہومغزہ لہو لہوآئی ایم ایف نے 1 فیصد ڈیم سیس مسترد کر دیا، جی...

آئی ایم ایف نے 1 فیصد ڈیم سیس مسترد کر دیا، جی ایس ٹی بڑھانے کی تجویز



اسلام آباد:

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) نے میگا ڈیموں کی تعمیر کے لیے اشیا پر 1 فیصد پانی ذخیرہ کرنے کا سیس لگانے کی پاکستان کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے اور اس کے بجائے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے کسی بھی بڑے سائز کی فنڈنگ کے لیے 18 فیصد معیاری سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے کی تجویز دی ہے۔

حکومتی ذرائع کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم کی لاگت میں متوقع نظرثانی اور دریائے چناب پر ایک نیا چناب ڈیم بنانے کے لیے فنڈز کی ضرورت ہوگی اور کم از کم 800 ارب روپے اضافی درکار ہوں گے۔ حکومتی ذرائع نے بتایا کہ عالمی قرض دہندہ نے پانی ذخیرہ کرنے کا سیس لگانے کی اس تجویز کی توثیق نہیں کی جسے حکومت بجلی اور ادویات کے سوا ملک میں پیدا ہونے والی ہر قابل ٹیکس مصنوعات پر متعارف کرانا چاہتی ہے۔

مردم شماری میں بھارتی آبی جارحیت سے نمٹنے کے حل کے طور پر دو میگا واٹر سٹوریج ڈیموں اور ایک نئے ڈیم کی تعمیر کے فنڈز فراہم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس پیشرفت نے حکومت کو ایک سخت مقام پر دھکیل دیا ہے۔

حکومت ٹیکس کا بوجھ بڑھانے کے لیے تیار تھی لیکن صرف اس انداز میں جو اس بات کو یقینی بنائے کہ 100 فیصد وصولی صوبوں کے ساتھ شیئر کرنے کی بجائے وفاق کے پاس ہی رہیں۔ سیس کی صورت میں حکومت کو وصولی کا پورا حق حاصل ہوگا جبکہ سیلز ٹیکس وفاقی تقسیم ہونے والے پول کا حصہ بن جائے گا۔

صوبائی حکومتوں کی اکثریت کی جانب سے دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی جلد تکمیل کے لیے مالی اعانت سے ہچکچاہٹ کے بعد حکومت نے آئی ایم ایف سے نیا ٹیکس لگانے کی اجازت طلب کی تھی۔

حکومت نے تجویز دی تھی کہ صوبوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی 716 ارب روپے کی لاگت میں سے نصف کا انتخاب کرنا چاہیے اور 358 ارب روپے کے فنڈز بھارتی جارحیت سے نمٹنے کے لیے تیز رفتاری سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے استعمال کیے جائیں تاہم صوبوں نے اس سے انکار کر دیا۔

وزارت خزانہ کے ترجمان قمر عباسی نے اس پیشرفت پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ آئی ایم ایف کو پانی ذخیرہ کرنے کے سیس کی تجویز پر بہت سے اعتراضات ہیں جن میں قانونی اور گورننس کے چیلنجز سے متعلق اعتراضات بھی شامل ہیں۔ ذرائع نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کا خیال تھا کہ کوئی بھی خصوصی لیوی بجٹ میں لچک کو کم کرتی ہے اور سیلز ٹیکس ایسی لچک دے سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف نئے سیس کا کنٹرول واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کو دیناے کے خیال سے مطمئن نہیں تھا۔

آئی ایم ایف نے اس سے قبل حکومت سے کہا تھا کہ وہ ایک ٹریلین روپے کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (PSDP) سے فنڈ سے ان ڈیموں کے لیے رقم فراہم کرے لیکن حکومت پی ایس ڈی پی سے زیادہ رقم حاصل کرنے کی طرف مائل نہیں تھی اور اس سال قومی ترجیح کے طور پر میگا سٹریٹجک پراجیکٹس کی بجائے اتحادی شراکت داروں کی ضروریات پر زیادہ توجہ دے رہی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو بتایا ہے کہ اگر وہ ترقیاتی اخراجات کے لیے مزید رقم حاصل کرنا چاہتا ہے تو سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے پر غور کر سکتا ہے۔ معیاری سیلز ٹیکس کی شرح 18فیصد ہے ۔ حکومت غیر رجسٹرڈ شخص کو سامان فروخت کرنے کی صورت میں 3 فیصد اضافی سیلز ٹیکس کی شرح بھی وصول کرتی ہے۔

حکومت کی جانب سے بلوچستان میں بجلی کی سبسڈی دینے اور ایک سڑک کی تعمیر کے لیے پیٹرولیم لیوی کی شرح میں اضافے کے پہلے فیصلے کے باعث یکم جولائی سے ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ سات برس قبل حکومت نے دیامر بھاشا ڈیم کی 479 ارب روپے اور مہمند ڈیم کی 310 ارب روپے کی منظوری دی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ نظرثانی شدہ تخمینے بتاتے ہیں کہ دیامر بھاشا ڈیم کی لاگت 1.1 ٹریلین روپے سے زیادہ ہو سکتی ہے جو تقریباً 620 ارب روپے کا اضافہ ہے۔ صحیح لاگت کا تعین اس وقت کیا جائے گا جب وزارت منصوبہ بندی کو نظر ثانی شدہ دستاویزات موصول ہوں گی۔ یہاں تک کہ اصل لاگت 479 ارب روپے کے مقابلے میں حکومت کو کام مکمل کرنے کے لیے مزید 365 ارب روپے درکار ہیں۔

اس مالی سال کے لیے دیامر بھاشا ڈیم کے لیے صرف 25 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو گزشتہ مالی سال سے بھی کم ہے۔ اسی طرح مہمند ڈیم کو سات سال قبل 310 ارب روپے کی لاگت سے منظور کیا گیا تھا اور اس کے لیے اب بھی پرانی قیمت پر کم از کم 173 ارب روپے مزید درکار ہیں۔ اس کے لیے نئے مالی سال کے لیے صرف 35.7 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

اسی طرح حکومت دریائے چناب پر تقریباً 220 ارب روپے کی لاگت سے ڈیم بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اس کے لیے چناب ڈیم اور دیامر بھاشا ڈیم کے لیے اضافی 800 ارب روپے درکار ہیں۔ باقی مالیاتی ضروریات کو شامل کرنے کے بعد حکومت کو صرف ان تین ڈیموں کے لیے کل 1.35 ٹریلین روپے کی ضرورت ہے۔

بھارت نے سندھ طاس معاہدہ روکنے کے بعد معاہدے کی دفعات کی خلاف ورزی اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانی کی سپلائی میں کمی کی دھمکی دی ہے۔ اسلام آباد نے بھارت سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ایسی کسی بھی کارروائی کو جنگی کارروائی تصور کیا جائے گا۔ رواں مالی سال کے لیے حکومت نے 28فیصد کمی کرکے پانی کے شعبے کا ترقیاتی بجٹ 133 ارب روپے کردیا ہے۔

اب حکومت ایک نیا ٹیکس متعارف کروا کر اس کو پورا کرنا چاہتا ہے۔ ایک آپشن یہ بھی ہے کہ نیا ایک فیصد سیس لگانے یا جی ایس ٹی کی شرح بڑھانے کے بجائے حکومت کو چاہیے کہ وہ GIDC قانون میں ترمیم کرے اور پہلے سے جمع شدہ 400 بلین روپے سے زیادہ رقم ڈیموں کی تعمیر کی طرف موڑ دے۔ حکومت نے رواں ہفتے وزارت منصوبہ بندی اور وزیر اعظم آفس میں اجلاس منعقد کیے ہیں تاکہ دیگر ان منصوبوں کی فنڈنگ کے لیے حکمت عملی کو حتمی شکل دی جا سکے جنہیں مکمل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا افتتاح اسی سال وزیر اعظم شہباز شریف کر سکتے ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات