32 C
Lahore
Friday, July 18, 2025
ہومغزہ لہو لہوغزہ جنگ بندی ٹرمپ کا امتحان

غزہ جنگ بندی ٹرمپ کا امتحان


توقع یہ کی جا رہی تھی کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے انتخابی وعدے کے مطابق جنگوں کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی چار روزہ جنگ روکنے میں بجا طور پر مثبت کردار ادا کیا جس کا وہ مختلف مواقعوں پر بار بار تذکرہ کرتے رہے ہیں۔

ابھی چار روز پیشتر وہائٹ ہاؤس میں نیٹو سیکریٹری جنرل کی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر انھوں نے پاک بھارت جنگ رکوانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ مداخلت نہ کرتے تو ایک ہفتے میں پاک بھارت ایٹمی جنگ چھڑ سکتی تھی۔ صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے لیڈر زبردست ہیں، ہم نے تجارت کے ذریعے خطرناک تصادم کو روکا۔ وہ بجا طور پر اس بات کا کریڈٹ لینے کے حق دار ہیں۔

انھوں نے اسرائیل ایران جنگ رکوانے میں بھی ثالثی کا کردار ادا کیا لیکن متنازعہ طریقے سے کہ پہلے خود بھی اس جنگ میں شامل ہو کر ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا بعدازاں اسرائیل ایران جنگ بندی کروائی اور اسرائیلی طیاروں کو جو ایران پر بمباری کے لیے آ رہے تھے انھیں واپس بھجوایا، جو اس امر کا عکاس ہے کہ اسرائیل امریکی احکامات کی مکمل تابع داری کرتا ہے۔

صدر ٹرمپ اور نیتن یاہو ایک دوسرے کے مزاج آشنا بھی ہیں، بالخصوص نیتن یاہو امریکی آشیرباد کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھاتے۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں مبصرین اور تجزیہ نگار سوال اٹھا رہے ہیں صدر ٹرمپ اب اگلے مرحلے میں اسرائیل فلسطین (حماس) جنگ بندی کرانے میں کیوں ناکام چلے آ رہے ہیں؟ اب تو اسرائیل نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے غزہ کے نہتے مسلمانوں پر بمباری کے ساتھ ساتھ لبنان اور شام کے علاقوں پر بھی بم برسانے شروع کر دیے ہیں۔

لبنان کے شہر وادی البقاع پر بمباری میں 12 افراد کو شہید کر دیا گیا جب کہ شام کے جنوبی علاقے سویدا پر بھی اسرائیلی طیاروں نے بمباری کرکے کئی افراد کو شہید کر دیا۔اسرائیل کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خاموش پالیسی نیتن یاہو کے جنگی جنون کو ہوا دے رہی ہے، نتیجتاً وہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ شام اور لبنان تک پھیلانے کے لیے کوشاں ہے۔ امریکا کے خصوصی ایلچی برائے شام و لبنان تھامس براک نے کہا ہے کہ اسرائیلی حملے لبنان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل سکتے ہیں۔ یہ صورت حال لمحہ فکریہ ہے۔

اقوام متحدہ کے بانی کمشنر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) کا کہنا ہے کہ رواں سال کے آغاز میں مقبوضہ مغربی کنارے کے شمال میں اسرائیلی حملوں سے اب تک تقریباً 30 ہزار فلسطینی جبری طور پر بے گھر کیے گئے ہیں۔ دراصل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اپنے منصوبے کے تحت غزہ پر مکمل کنٹرول حاصل کر کے وہاں سے فلسطینیوں کو بے دخل کرنا چاہتے ہیں، لیکن نہتے فلسطینی مسلمانوں کی ثابت قدمی اپنی سرزمین کی بقا کے لیے معصوم و بے گناہ بچوں، عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کی جانی قربانی اسرائیل کے ناپاک اور مذموم ارادوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

آپ اندازہ کیجیے کہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والے اسرائیلی فضائی و زمینی حملوں میں 58 ہزار سے زائد نہتے فلسطینی اب تک شہید ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ کے لگ بھگ زخمی ہیں اس کے باوجود اسرائیل نہتے فلسطینیوں کے مضبوط عزم کو تسخیر کرنے میں ناکام رہا۔ اسرائیلی طیاروں نے نہ صرف شہری آبادیوں کو نشانہ بنایا بلکہ اسکول، اسپتال حتیٰ کہ خوراک حاصل کرتے امدادی کیمپوں میں برتن تھامے قطار میں کھڑے معصوم فلسطینیوں کو بھی شہید کر دیا۔

پورے یورپ امریکا، مسلم ممالک یہاں تک کہ اسرائیل کے اندر بھی عوامی سطح پر اور اسرائیلی حملوں کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان، ایران، چین، سعودی عرب، قطر و دیگر مسلمان ملکوں کی جانب سے حکومتی سطح پر اسرائیلی حملوں کی شدید مذمت اور جنگ بندی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

قطر دوحہ میں حماس اسرائیل جنگ بندی مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں لیکن مودی سرکار کی طرح نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی کے باعث مذاکرات بار بار تعطل کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک اسرائیلی اخبار ’’دی ہارٹز‘‘ نے قرار دیا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو غزہ جنگ بندی مذاکرات سبوتاژ کرکے اپنے حمایتی امریکی صدر ٹرمپ کے لیے ذلت و رسوائی کا باعث بن گئے ہیں۔ اس پس منظر میں غزہ میں جنگ امریکی صدر کے لیے امتحان ہے۔ امید کی جانی چاہیے آیندہ چند دنوں میں ٹرمپ حماس اسرائیل جنگ رکوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات