29 C
Lahore
Friday, July 18, 2025
ہومغزہ لہو لہوترقی پذیر اقوام کے لیے توانائی سرمایہ کاری ناگزیر ہے، پاکستانی مندوب

ترقی پذیر اقوام کے لیے توانائی سرمایہ کاری ناگزیر ہے، پاکستانی مندوب



واشنگٹن:

پاکستان نے کہا ہے کہ ملک میں خاموش شمسی انقلاب جاری ہے، جو کم درآمدی محصولات، سستی ٹیکنالوجی اور نیٹ میٹرنگ پالیسیوں کی بدولت ممکن ہوا ہے۔

اس موقع پر پاکستان نے قرضوں کی ادائیگی کے بحران سے دوچار ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی گنجائش بڑھانے پر زور دیا۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے ایس ڈی جی 7: توانائی کی پیشرفت کی رپورٹ 2025 اور پالیسی بریفز برائے ہائی لیول پولیٹیکل فورم 2025 کے اجرا کے موقع پر قومی بیان دیتے ہوئے کہا کہ مالی وسائل کی کمی ترقی پذیر دنیا کی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت کو محدود کر رہی ہے۔

یہ ایونٹ گروپ آف فرینڈز آن سسٹین ایبل انرجی کے شریک میزبانوں نے پاکستان، ناروے، ایتھوپیا اور ڈنمارک کے مستقل مشنز کے ساتھ مل کر منعقد کیا۔

سفیر عاصم نے کہا کہ پاکستان عالمی توانائی کے تبدیلی کے عمل میں درپیش ہنگامی صورتحال اور مواقع دونوں کی عکاسی کرتا ہے۔

انہوں نے کہا 2024 میں پاکستان میں تقریباً 4 کروڑ افراد کو بجلی تک رسائی حاصل نہ تھی۔ ہم صاف توانائی کے اہداف کے لیے پرعزم ہیں۔ ہمارا ہدف ہے کہ 2030 تک 60 فیصد بجلی قابلِ تجدید ذرائع سے حاصل کی جائے۔

ہمارا توانائی منصوبہ 13 گیگاواٹ نیا ہائیڈرو پاور شامل کرنے کا ہے، جبکہ نیوکلیئر انرجی بھی قابلِ اعتماد اور کم کاربن بیس لوڈ فراہم کر رہی ہے۔”

اقوام متحدہ کی مختلف رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے، سفیر عاصم افتخار احمد نے کہا کہ اگرچہ پائیدار ترقی کے ہدف 7 (SDG7) کے حصول کی طرف پیش رفت ہوئی ہے، لیکن یہ اب بھی غیر مساوی ہے اور دنیا بھر میں 675 ملین سے زائد افراد اب بھی بجلی سے محروم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ساتھ توانائی تک رسائی کا خلا پُر کرنا ہوگا، توانائی کے نظام کو ڈی کاربنائز کرنا ہوگا، اور کارکردگی میں اضافہ کرنا ہوگا اور یہ سب کچھ مساوی، منصفانہ اور جامع طریقے سے ہونا چاہیے۔

انہوں نے دنیا پر زور دیا کہ وہ 2030 تک توانائی اور ماحولیاتی اہداف کے حصول کے لیے سالانہ 4.3 ٹریلین امریکی ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرے۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اس تناظر میں ترقی پذیر ممالک کے لیے عوامی صاف توانائی کی فنانسنگ صرف 21.6 ارب امریکی ڈالر ہے، جس میں سے 83 فیصد قرضوں پر مشتمل ہے۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ صاف توانائی کی سرمایہ کاری زیادہ تر ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی معیشتوں میں کی جا رہی ہے، ترقی پذیر ممالک کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

پاکستانی سفیر نے اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے تین اہم اقدامات تجویز کیے

* ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی گنجائش بڑھائی جائے، خاص طور پر Compromiso de Seville روڈمیپ پر عملدرآمد کے ذریعے۔

* ترقی پذیر ممالک میں ادارہ جاتی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور صاف توانائی کی سرمایہ کاری کے لیے خطرات کم کرنے کے طریقے اپنائے جائیں۔

* ایسی توانائی حل تیار کیے جائیں جو دیگر فوائد بھی فراہم کریں، جیسے پاکستان میں سیلاب کے بعد سولر کٹس کی تقسیم، جس سے بجلی کی بحالی، نقل و حرکت، صحت اور موسمیاتی نتائج بہتر ہوئے۔

انہوں نے بیان کے اختتام پر کہا کہ عالمی توانائی کی منتقلی بلاشبہ جاری ہے، لیکن اگر اس کے لیے منصوبہ بندی اور ہدفی بین الاقوامی مدد فراہم نہ کی گئی تو یہ غیر مساوی اور منقسم ہو سکتی ہے۔

آئیے اقوام متحدہ کی دہائی برائے پائیدار توانائی برائے سب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سمت درست کریں اور ایسی صاف توانائی کی منتقلی یقینی بنائیں جو کسی کو پیچھے نہ چھوڑے۔”



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات