اسلام آباد:
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی جانب سے 7 ارب ڈالر کے مالیاتی پروگرام کی سنگین خلاف ورزی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، حکومت نے 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمدکرنے کیلیے تمام ٹیکسز اور ڈیوٹیز معاف کر دیں، جو کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ تحریری وعدوں کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے حکومت کی اس وضاحت کو مستردکر دیا ہے کہ چینی کی درآمد “فوڈ ایمرجنسی” کے تحت کی جا رہی ہے، اس فیصلے سے قبل حکومت نے 7 لاکھ 65 ہزار میٹرک ٹن چینی برآمدکرنے کی اجازت دی تھی، جس سے ملک میں چینی کی قیمت تاریخ میں پہلی بار 200 روپے فی کلو سے تجاوزکرگئی۔
وزارت خزانہ اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے فیصلے کی مخالفت کی تھی اور وزیراعظم کو آگاہ کیا تھا کہ ٹیکس میں چھوٹ دیناآئی ایم ایف معاہدے کی خلاف ورزی ہے، جس سے پروگرام خطرے میں پڑ سکتا ہے تاہم کابینہ نے وزارت خزانہ کی رائے کے بغیر ہی سمری کی منظوری دیدی۔
ایف بی آر نے تین علیحدہ علیحدہ نوٹیفیکیشنز جاری کرکے درآمدی چینی پر تمام ڈیوٹیز معاف کر دیں اور سیلز ٹیکس و ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح صرف 0.25 فیصد مقرر کی، جو آئی ایم ایف معاہدے کے منافی اقدام ہے، معاہدے کے مطابق پاکستان کسی بھی قسم کی نئی ٹیکس چھوٹ یا ترجیحی ٹیکس سہولت نہیں دے سکتا۔
ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (TCP) پہلے ہی 3 لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمدکرنے کا ٹینڈر جاری کر چکا ہے اور بولی جمع کرانے کی آخری تاریخ 18 جولائی مقرر کی گئی ہے، حکومت اب فیصلے پر نظرثانی کر رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق چینی کی درآمد سے مکمل طور پر پیچھے ہٹنے اور نجی شعبے کیلیے ٹیکس چھوٹ واپس لینے پر غورکیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ مقامی ضرورت پوری کرنے کیلیے کرشنگ سیزن کا آغاز کر سکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بحران حکومت کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے اور معاملہ آئی ایم ایف مشن کی نئی سربراہ ایوا کیلیے بڑا امتحان ثابت ہو سکتا ہے۔