27 C
Lahore
Monday, July 14, 2025
ہومغزہ لہو لہوکیلی گلادراصل ایک سوچ کا نام ہے!

کیلی گلادراصل ایک سوچ کا نام ہے!


رومن سلطنت ‘ صدیوں تک‘ دنیا کی سب سے طاقتور ریاست رہی ہے۔ ایشیا‘ یورپ ‘ افریقہ‘ اس کی ٹھوکروں میں تھا۔ روم کی حیثیت بالکل وہی تھی جو موجودہ دور میں نیویارک اور واشنگٹن کی ہے۔ مگر وقت کے تھپیڑوں کے سامنے یہ خس و خاشاک کی طرح بکھر گئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ زوال کیسے ممکن ہوااور اتنی بڑی قوت محض ایک قصہ بن گئی۔ ممکنہ وجہ صرف ایک تھی۔ نااہل اور ادنیٰ لوگوں کی حکومت ۔ جب تک نسبتاً بہتر لوگ حکمران رہے۔

سلطنت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ مگر جب سفلی اور دروغ گو افراد تخت پر قابض ہو گئے تو زوال کا وہ سلسلہ شروع ہوا‘ کہ سلطنت ہی قصہ پارینہ بن گئی۔ انھی نااہل حکمرانوں میں کیلی گولا بھی تھا۔ وہ روم کا چار برس تک مختار رہا۔ مختصر سے دورانیہ میں اتنی مہیب غلطیاں کیں‘ کہ سلطنت کا مضبوط نظام تتر بترہو گیا اور پھر معاملات کبھی نہ سنبھل پائے۔ 16مارچ 37 عیسوی میں تخت نشین ہونے والا‘ بادشاہ‘ چوبیس جنوری ‘ 41 عیسوی میں اٹھائیس برس کی عمر میں قتل کردیا گیا ۔

حکمران بننے کے تھوڑے عرصے بعد ‘ کیلی گلا اور رومن سینیٹ کے معاملات کشیدہ تر ہوتے گئے۔ اس نے سینیٹرز کی جائیدادیں ضبط کرنا شروع کر دیں۔ جبراً خزانہ بھرنے کی ناکام کوشش کی۔ مگر اپنی اصلاح کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ Soetonius ‘ جو ایک معتبر تاریخ دان تھا۔ اس کے مطابق‘ صرف پہلے سال میں کیلی گلا نے تین ارب اسٹرکیس (اشرفیوں ) کی کرپشن کی۔ مگر اعلان یہی کرتا رہا کہ اشرافیہ کا کڑا احتساب کر رہا ہے۔

اس کے علاوہ اس نے سینیٹ میں جعلی کاغذات پیش کیے کہ سینیٹرز سازش‘ ریشہ دوانیوں اور حکومت کے اہم افراد کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ جو بھی اس کے سفاکانہ احکامات کے متعلق بات کرتا، اسے فوراً غداروں کی فہرست میں ڈال دیا جاتا، اس کو نشان عبرت بنا دیا جاتا۔ مطلب یہ کہ روم میں کوئی بھی آواز‘ اس کے خلاف نہ اٹھ پائے۔ ویسے’’تیسری دنیا کے عمومی حالات اور اسلام کے قلعہ‘‘ کے حالات دہائیوں سے ا یسے ہی چلے آرہے ہیں۔ آگے چلنے سے پہلے ‘ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیلی گلا‘ شاہی خزانے کا استعمال کیسے کرتا تھا۔ اس نے شاہی محل میں ایک تالاب بنوایا ہوا تھا۔ اسے سونے کی اشرفیوں سے بھر دیا جاتا تھا۔

بادشاہ‘ اس میں کود کر ایسے ظاہر کرتا تھاجیسے وہ تیراکی کر رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد‘ لیٹ جاتا تھا۔ غلاموں کو حکم تھا ‘ کہ اس کے اوپر اشرفیوں کے انبار لگا دیے جائیں۔ جب وہ نظر آنا بند ہو جاتا یعنی اس پر سونا ہی سونا ہوتا تھا تو وہ چھلانگ لگا کر باہر آ جاتا تھا۔ اور بچوں کی طرح قہقہے لگاتا تھا۔ درباری بلکہ طبلچی اس کو مبارک باد دیتے تھے۔ویسے‘ شاہی درباریوں کاایک ازلی وطیرہ رہا ہے کہ وہ بادشاہ کی ہر حماقت پر تعریف کے ڈونگر ے بلکہ شادیانے بجاتے رہتے ہیں۔

اس بدقسمت قوم کی بربادی دیکھیئے کہ کیلی گلا نے اپنے آپ کو ’’خدا کا اوتار‘‘ ہونے کا اعلان کر دیا۔ اپنے آپ کو jupiterکا خطاب دے دیا۔ تمام اسکول اور شاہی کاغذات پر‘ اسے جوپیٹر لکھا جانے لگا۔ دعویٰ یہ بھی تھا کہ خدا سے باتیں کرتا ہے۔ ساتھ ساتھ‘ کیلی گلا ‘ چاند سے بھی محو گفتگو رہتا تھا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ ’’چاند‘‘ کو اپنے کمرے میں بلا لیتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ’’ باتیں کرتا ہے‘‘۔

 کیلی گلا‘ کسی بیماری کی وجہ سے سر کے تمام بالوں سے محروم ہو چکا تھا اور بدصورت لگنے لگا تھا۔ اس نے شاہی فرمان جاری کیا کہ جب بھی بادشاہ‘ عوام میں آئے ‘ تو کوئی درباری ‘ اس سے اونچی جگہ پر کھڑا نہ ہو تاکہ کوئی بھی بادشاہ کا سر نہ دیکھ پائے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بادشاہ‘ سب سے اونچی جگہ کھڑا ہوتا تھا، بادشاہ کے پورے جسم پر بال کافی گھنے تھے۔ قریب سے دیکھنے سے ایسے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک بکری ہے۔

اس مماثلت کو ختم کرنے کے لیے شاہی دربار میں بکری کے لفظ کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی مگر پورے روم میں کیلی گلا کا نام ’’بکری‘‘ مشہور ہو گیا ۔ عوام میں اس کی ناپسندیدگی ‘ حد سے زیادہ بڑھ چکی تھی۔ مگر کیلی گلا اپنی ذہنی خرافات کے تحت زندگی گزار رہا تھا۔

رومن بادشاہ کا سفلی پن دیکھیے کہ وہ اپنی معمولی سی کامیابی کا بھی خوب ڈھنڈورا پیٹتا تھا۔ اول تو اس کے دور میں کوئی بڑی فتح ہوئی نہیں تھی مگر مصنوعی فتوحات کو شاہی دربار میں جشن کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ گلیڈیٹرز کے مقابلے کرائے جاتے تھے۔ شہریوں میں کھانا تقسیم کیا جاتا تھا۔ رتھوں کی دوڑیں منعقد کی جاتی تھیں۔ عوام میں اپنی جعلی بہادری کے قصے پھیلانے کے لیے کیلی گلا نے ایک عجیب کام کر رکھا تھا۔پوری سلطنت سے بہادر گلیڈیٹرز کو روم میں اکٹھا کیا جاتا تھا۔ کلوسیم میں کیلی گلا سے لڑنے کا ڈھونگ رچایا جاتا تھا۔

یہ یک طرفہ کھیل ہوتا تھا۔ بادشاہ‘ لوگوں کے سامنے چند داؤ پیچ کھیلتا تھااور پھر بڑے آرام سے ‘ Gladiator کو قتل کر ڈالتا تھا۔ دراصل یہ مقابلہ ہی نہیں تھا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ بادشاہ بہت بہادر ہے مگر اندرون خانہ سب کو معلوم تھا کہ یہ سب کچھ جعلی ہے۔ اگلی حرکت بیان کروں گا تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ سینیٹ کے سیاستدانوں کو نیچا دکھانے کے لیے‘کیلی گلا نے اعلان کر دیا کہ اپنے پالتو گھوڑے کو وزیراعظم بنائے گا۔

گھوڑے کا نام Incitatus تھا۔ فرمان جاری ہوا کہ گھوڑے کو ہر جگہ شاہی پروٹوکول دیا جائے۔ گھوڑے کے لیے قیمتی پتھر کا اصطبل بنایا گیا، اسے شاہی خلعت پہنائی جاتی تھی۔ کھانے کے لیے خوبانیوں میں سونے کے ورق رکھے جاتے تھے۔ رات کو جب کیلی گلا کے لیے دسترخوان سجایاجاتا تھا تو گھوڑا اس میں بطور وزیراعظم شرکت کرتاتھا۔ ایک سو ستر خادم‘ اس کی خدمت پرمامور ہوتے تھے۔ دربار سے باہر گھوڑے کی گندگی صاف کرنے والے کو سونے کی اشرفیاں‘ انعام میں دی جاتی تھیں۔وزیراعظم بننے کے لیے مگر سینیٹ سے منظوری کی ضرورت تھی۔ اس سے پہلے ہی شہنشاہ کو اس کے گارڈز نے قتل کر دیا۔ خواص اور عوام میں اس کے خلاف اتنی نفرت تھی کہ کیلی گلا کے جسم پر تلواروں کے چالیس وار‘ پے در پے کیے گئے ۔

کیلی گلا کو ایک استعارے کے طور پر استعمال کیجیے۔ تیسری دنیا کے تمام ممالک کے عوام کیلی گلا جیسے حکمرانوں کی گرفت میں تڑپ رہے ہیں۔ افریقہ ‘ ایشیاء‘ وسطی امریکا کے اکثر ممالک غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں اور وہاں کے شاہی خانوادے‘ سونے کے سکوں میں تیرنے کا اہتمام کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ تمام ممالک ‘ انسانی حقوق‘ مساوات‘ دولت کی منصفانہ تقسیم کو گناہ ِ کبیرہ کا درجہ دے چکے ہیں۔ صرف یورپ اور شمالی امریکا کے ممالک‘ اپنے ملکی نظام کو اتنا توانا رکھے ہوئے ہیں کہ مراعات یافتہ طبقہ‘ چوں نہیں کر سکتا۔ انتقال اقتدار کا باظابطہ نظام وہاں فعال ہے۔ عدالتیں اپنا کام‘ بخوبی کر رہی ہیں۔ ہاں ایک اور اہم نکتہ بھی یکساں ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں مذہب کو حکومت سے جدا کر دیا گیا ہے۔ ریاست کی نظر میں تمام مذاہب یکساں درجہ رکھتے ہیں۔ اس کے بالکل متضاد ‘ ترقی پذیر ممالک میں‘ آج بھی دائیں بازو کے مذہبی گروہ ‘ کسی نہ کسی بھیس میں اقتدار پرقابض ہیں۔ اعلان کرنے کی ہمت نہیں۔ مگر عملی طور پر اپنے آپ کو ’’ظل الٰہی‘‘ ہی سمجھتے ہیں۔

باقی ممالک کو چھوڑیئے ، ذرا ‘ اپنے وطن عزیز پر نظر دوڑایئے ۔ ہر دور میں کوئی نہ کوئی کیلی گلا نظر آئے گا۔ ہاں ایک بات اہم ہے۔ روم کے کیلی گلا کی مانند ہر دور کے حکمران’’عوامی رد عمل‘‘ کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں۔ چوبداروں اور چوکیداروں کے درمیان‘ اپنے آپ کو محفوظ گردانتے ہیں ۔ لوگوں کی جعلی فلاح کے مذموم دعوے کرتے ہیں۔ شاید ہم حد درجہ بدقسمت لوگ ہیں کہ ہمارے مقامی کیلی گلا ستر برس گزرنے کے باوجود ‘ ہر دم موجود ہیں۔ بہرحال تاریخ کا سبق یہی ہے کہ رومن بادشاہ کیلی گلا اپنے محافظوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا۔ مگر یہاں انجام سے کون سبق سیکھتا ہے۔دراصل یہ ایک سوچ کا نام ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات