سائنس دانوں کو ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ برسوں سے بے ضرر سمجھا جانے والا وائرس پارکنسنز (رعشے) بیماری کا ایک ممکنہ سبب ہو سکتا ہے۔
نارتھ ویسٹرن میڈیسن سے تعلق رکھنے والےتحقیق کے سربراہ مصنف ڈاکٹر آئگر کورلِنک نے ایک پریس ریلیز میں کہا کہ سائنس دان ممکنہ ماحولیاتی عوامل (جیسے کہ وائرسز) جو اس بیماری میں حصہ ڈال سکتے ہیں کی تحقیق کرنا چاہتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ کہ تحقیق میں انہوں نے ’وائرو فائنڈ‘ نامی ٹول سے رعشے کے مریضوں اور اس بیماری سے پاک افراد کی اموات کے بعد دماغ کے حاصل شدہ بافتوں کا جائزہ لیا۔ جائزے میں انسانوں کو متاثر کرنے والے اب تک کے معلوم تمام وائرسز کو دیکھا گیا تاکہ دونوں گروہوں کے درمیان کسی فرق کی نشان دہی کی جا سکے۔
جائزے میں سائنس دانوں نے رعشے کے مریضوں کی نصف تعداد کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کے گودے میں ہیومن پیگی وائرس کی نشان دہی کی۔ یہ وائرس ہیپاٹائٹس سی کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور خون کے ذریعے پھیلتا ہے۔
جرنل جے سی آئی انسائٹ میں شائع ہونے والی تحقیق اس پیچیدہ بیماری کے کچھ مزید عوامل کو واضح کرنے میں اہم کامیابی ثابت ہو سکتی ہے اور ماضی میں بے ضرر سمجھے جانے والے وائرس کے متعلق نئی معلومات فراہم کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر آئگر کا کہنا تھا کہ HPgV ایک عام علامت کے بغیر انفیکشن ہے جس سے متعلق یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ مسلسل دماغ کو متاثر کرتا ہے۔