نومبر میں ہونے والی یومِ اقبال کی تقریب میں اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ ہماری قومی زبان اردو کواگر دفتری اور عدالتی زبان نہ بنایا گیا تو اس کا زندہ رہنا مشکل ہوگا اور نئی نسل کا، جو نہ اردو پڑھ سکتی ہے اور نہ لکھ سکتی ہے، اپنے دین اور وطن کے ساتھ تعلّق کمزور ہوتے ہوئے ٹوٹ جائے گا،اس ضمن میں قراردادیں بھی پاس کی گئیں۔
اپریل کی تقریب میں بھی محترم مجیب الرحمن شامی، خواجہ سعد رفیق اور راقم نے اردو کو زندہ رکھنے کی اہمیّت کو اُجاگر کیا اور اس ضمن میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے پر زور دیا۔ راقم نے اس بات پر زور دیا کہ نئی نسل اردو سیکھنے کے لیے تب تیّار ہوگی جب اسے روزگار کی زبان بنایا جائے گا، اس کے لیے ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی سطح پر منعقد ہونے والے مقابلے کے امتحانات میں اردو کا پرچہ لازمی قرار دیا جائے۔
اس کے علاوہ پاکستان افیئرز اور اسلامیات کے لازمی پرچے (جن کے لیے بہترین کتابیں اور مواد اردو میں میّسر ہے) اردو میں حل کرنا لازم قرار دیا جائے۔ اردو ایک زبان ہی نہیں یہ ہمارے دینی، ثقافتی اور تہذیبی ورثے کی حامل اور وارث ہے۔ اس کی اہمیّت سے چشم پوشی انتہائی خطرناک نتائج کی حامل ہوگی۔
علّامہ اقبال کونسل جو کہ فکرِ اقبالؒ کے فروغ کے لیے مصروفِ عمل ہے، طلبا وطالبات میں کلامِ اقبال پڑھنے اور سمجھنے کا شوق پیدا کرنے کے لیے ان کے درمیان تقریری اور تحریری مقابلے بھی منعقد کراتی رہتی ہے۔ اس بار کونسل کے چیئرمین کی حیثیّت سے راقم نے سیکڑوں اساتذہ اور طلبا کی موجودگی میں اعلان کیا کہ جی سی یونیورسٹی کے بخاری آڈیٹوریم میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں کے طلبا وطالبات کے درمیان فکرِ اقبال کے کسی موضوع پر تقریری مقابلہ منعقد کیا جائے، جس کے انتظامات جی سی یونیورسٹی کرے، جب کہ جیتنے والوں کو انعامات اور میڈل علامہ اقبال کونسل کی طرف سے دیے جائیں گے۔
انعامات کی تفصیل بتاتے ہوئے راقم نے بتایا کہ اوّل آنے والے کو پچاس ہزار روپے، دوم آنے والے کو تیس ہزار اور تیسری پوزیشن حاصل کرنے والے کو بیس ہزار روپے انعام دیا جائے گا۔ مگر اس میں سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کی یونیورسٹیوں کے طلبا وطالبات بھی ضرور حصہ لیں۔ جی سی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عمر چوہدری صاحب نے اس قومی سطح کے گرینڈ مقابلے کی میزبانی کرنے کی فوراً حامی بھرلی جو انتہائی خوش آیند ہے۔
علامہ اقبال کونسل کی طرف سے اسی طرح کی پیشکش NUST اسلام آباد اور انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کو بھی کی گئی ہے کہ جو اسٹوڈنٹ، ریسرچ کے میدان میں کوئی غیر معمولی کامیابی حاصل کرے گا یعنی کوئی نئی چیز ایجاد کرے گا، اسے کونسل ایک لاکھ روپے انعام دے گی۔ دونوں تقریبات کی کامیابی کے لیے ہماری بہن محترمہ حامدہ طارق صاحبہ، عزیزم عثمان زمرد، میرے دوست شہباز احمد شیخ اور پولیس افسران میں سے سید خرم علی، خرم شہزاد، اطہر اسمعیل، فیصل کامران، حماد عابد، سید فرید علی اور حماد ناصر نے بڑابھرپور کردار ادا کیا۔
لاہور جانا ہو تو دو معروف پولیس افسروں سے ضرور ملاقات ہوتی ہے، فاروق مظہر (جو اپنی دیانتداری اور قابلیّت کی بناء پر معروف ہیں) آج کل نیپا کے ڈائریکٹر جنرل ہیں، انھوں نے نیپا کے افسروں کو لیکچر دینے کے لیے راقم کو پابند کرلیا، لہٰذا نیپا کے مہمان خانے میں ہی قیام رہا اور فاروق مظہر سے بڑی مفید گپ شپ رہی۔ سابق سی سی پی او لاہور چوہدری شفیق (جنھوں نے میرے ساتھ بھی کام کیا ہے) ایک دیانتدار، دلیر اور دبنگ افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وفا اور دوستی نبھانا بھی وہ خوب جانتے ہیں، لاہور کا دورہ ہو تو ان کی طرف سے بھی ڈنر کا لازمی اہتمام ہوتا ہے جس کو میرے کہنے پر صرف چند قریبی دوستوںتک محدود رکھا جاتا ہے۔
جاوید نواز صاحب ایک اعلیٰ کردار کے حامل اور ملک سے بے حد محبّت کرنے والے شخص ہیں، جو پچھلے کئی سالوں سے مسقط میں مقیم ہیں۔ ایک کامیاب اور معروف بزنس مین کی حیثیّت سے ان کے اومان کے شاہی خاندان اور اعلیٰ حکاّم کے ساتھ گہرے مراسم ہیں۔چاہے وہ رہے مسقط میں ہوں مگر ان کا دل پاکستان میں ہی ہوتا اور پاکستان کے لیے ہی دھڑکتا ہے، بابائے صحافت محترم الطاف حسن قریشی صاحب سے ان کی دیرینہ اور گہری دوستی ہے۔ قریشی صاحب کو بسترِ علالت سے اٹھا کر کہیں بھی لے جانے کا حق اور صلاحیّت صرف جاوید نواز ہی رکھتے ہیں۔
مرکزیہ مجلسِ اقبال کی سالانہ تقریب کے بعد مقررین اور چند چنیدہ مہمانوں کے لیے کھانے کا اہتمام خواجہ عبدالرحیم مرحوم کے گھر پر ہوا کرتا تھا۔ وہ روایت قائم رکھتے ہوئے یومِ اقبال کی تقریب کے بعد عشائیے کا اہتمام کرنے کی ذمیّ داری محترم جاوید نواز صاحب نے خود سنبھال لی ہے۔
پچھلی بار کی طرح اس بار بھی ان کی طرف سے پنجاب یونیورسٹی کے ایگزیکٹیو کلب میں عشائیے کا اہتمام کیا گیا جس میں محترم الطاف حسن قریشی صاحب، شامی صاحب، ڈاکٹر خالد نواز صاحب،سابق چیف سیکریٹری عابد سعید صاحب، سجّاد میر صاحب اور سلیم منصور صاحب کے علاوہ معروف قانون دان حامد خان صاحب سے بڑی مفید اور دلچسپ بات چیت ہوتی رہی۔
ایک ضروری فریضہ جو میں لاہور جاکر ہر صورت ادا کرنا چاہتا تھا وہ تھا استادِ محترم شیخ امتیاز علی صاحب کی خدمت میں حاضری، مجھے ہر صورت ان کی رہائش گاہ پر سلام کے لیے حاضر ہونا تھا۔ میں یونیورسٹی کے سابق پرنسپل، قائداعظم یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور اپنے استاد محترم پروفیسر شیخ امتیاز علی صاحب کو ہر عید کے روز فون پر سلام کرتا ہوں۔ اس بار میں سو گیا اس لیے فون نہ کرسکا تو شیخ صاحب کا اپنا فون آگیا۔
جس پر مجھے سخت شرمندگی ہوئی۔ اور ایسے محسوس ہوا جیسے میں کسی جرم کا مرتکب ہوا ہوں۔ چنانچہ میں نے فیصلہ کرلیا کہ لاہور جاکر استادِ محترم کے درِ دولت پر حاضر ہوںگا اور سلام کروںگا۔ اس سلسلے میں عزیزم احمد جاوید قاضی (جو شیخ صاحب کی صاحبزادی کے داماد ہیں اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے ایک نہایت دیانتدار اور قابل افسر ہیں) سے رابطہ کرکے ان کے ذمّے لگایا کہ وہ استاد ِمحترم سے وقت لیں تاکہ میں سلام کے لیے حاضر ہوسکوں۔
میں شیخ صاحب کی صاحبزادی اور احمد جاوید صاحب کا شکر گذار ہوں کہ ان کی وساطت سے شیخ صاحب کی قدم بوسی کی میری خواہش پوری ہوگئی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ملک بھر میں نہ کوئی شیخ امتیاز علی صاحب جیسا استاد دیکھا ہے اور نہ ہی کوئی ان جیسا منتظم۔ میں نے “A Living Legend” کے عنوان سے اپنی پہلی کتاب میں شیخ صاحب کے بارے میں ایک مکمّل آرٹیکل لکھا ہے۔
استاد محترم سے قانون کے ضابطوں کے ساتھ ساتھ زندگی کے اصول بھی سیکھے ہیں۔ اس وقت ماشاء اللہ 102 سال کے ہوگئے ہیں مگر ذہنی طور پر الرٹ ہیں اور حافظہ حیرت انگیز طور پر اسی طرح ہے جس طرح آج سے نصف صدی پہلے ہوتا تھا۔ شیخ صاحب نے مجھے قائداعظم کے بارے میں ایک کتاب دی جس پر اپنے ہاتھ سے لکھا ’’ قائداعظم جس طرح کے پاکستانی چاہتے تھے، ذوالفقار بالکل اسی طرح ہے‘‘ استادِ محترم کے ہاتھ سے لکھے ہوئے چند الفاظ میرے لیے ملک کے سب سے بڑے میڈل اور اعزاز سے کہیں زیادہ قیمتی ہیں، اللہ تعالیٰ انھیں اچھی صحت عطا کریں اور ان کے لیے آسانیاں پیدا فرمائیں۔
کراچی یونیورسٹی سے کئی ماہ پہلے کا دعوت نامہ آیا ہوا تھا، وہاں سے ڈاکٹر نوشین صاحبہ کا کئی بار فون آچکا تھا اور انھوں نے بھی فکرِ اقبال پر لیکچر کے لیے مدعو کیا ہوا تھا۔ ایک دوبار تاریخ بھی مقرّر ہوئی مگر ایک بار میری مصروفیّت کے باعث اور ایک بار جامعہ کراچی میں اساتذہ کی ہڑتال کے باعث پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔ مگر بالآخر جامعہ کراچی میں یہ تقریب منعقد ہوئی جس میں میں پروفیسر ڈاکٹر تنظیم الفردوس، ڈاکٹر نوشین اور ڈی آئی جی جاوید اکبر ریاض کے ہمراہ ہال میں داخل ہوا۔ ہال پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ تقریب کے اختتام پر طلباء و طالبات کا کہنا تھا کہ انھوں نے پہلی بار مفکّرِ پاکستان کے ایسے روح پرور اشعار سنے ہیں۔ وہ کلامِ اقبال سنکر بلاشبہ بہت motivate ہوئے ہیں۔
اُس وقت (30اپریل) بھارت کا جنگی جنون زوروں پر تھا، اس کا ذکر کرتے ہوئے جب میں نے یہ کہا کہ اگر ہزاروں مسلمانوں کے قاتل مودی نے کوئی شرارت کی تو ملک کے ہر شہر، ہر گاؤں سے اور ہر علاقے سے نوجوان سارے گلے شکوے بھلا کر دفاعِ وطن کے لیے نکلیں گے۔ ان کے ہاتھوں میں سبز ہلالی پرچم اور زبان پر یہ شعر ہوگا۔
اے وطن تونے پکارا تو لہو کھول اُٹھا
تیرے بیٹے تیرے جانباز چلے آتے ہیں
آخر میں تمام طلباء و طالبات نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ اتنے زور سے لگایا کہ جس سے کراچی یونیورسٹی کے درو دیوار گونج اُٹھے۔ علاّمہ اقبالؒ نے اللہ تعالیٰ سے کئی دعائیں مانگیں۔ مگر اپنے لیے نہیں، سب ملّتِ اسلامیہ کے لیے تھیں۔ ایک التجا یہ کی کہ
یا رب دلِ مسلم کو وہ زندہ تمنّا دے
جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپادے
پھر یہ دعا کی کہ
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نورِ بصیرت عام کردے
اگر ہم اقبالؒ کے نورِ بصیرت سے اپنے دل و دماغ منوّر کرلیں تو ہمیں منزل بھی نظر آجائے گی اور رستہ بھی دکھائی دینے لگے گا۔