اسرائیل نے اپنی فوج کو حکم دیا ہے کہ وہ رفح کے کھنڈرات کو ایک فلاحی شہر میں تبدیل کرے لیکن ماہرین نے اِس منصوبے کو تمام فلسطینیوں کے لیے ایک ’حراستی کیمپ‘ قرار دیا ہے۔
اسرائیل نے غزہ کے فلسطینیوں کے لیے ویسا ہی حراستی مرکز بنانے کا فیصلہ کیا ہے جیسے دوسری عالمی جنگ سے پہلے نازی جرمنی نے یہودیوں کے لیے بنائے تھے۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز کے پیش کردہ منصوبے کے تحت غزہ کے تمام فلسطینیوں کو رفح کے کھنڈرات پر قائم کیمپ حراستی طرز کے کیمپ ’concentration camp‘ میں منتقل کیا جائے گا۔
کاٹز نے اسرائیلی صحافیوں کو بریفنگ میں بتایا کہ فلسطینیوں کو کیمپ میں داخل ہونے سے پہلے سیکیورٹی اسکریننگ سے گزرنا ہوگا اور ایک بار اندر جانے کے بعد انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اسرائیلی افواج اس کیمپ کے اردگرد کا کنٹرول سنبھالیں گی اور ابتدائی طور پر تقریباً 6 لاکھ فلسطینیوں کو اس علاقے میں منتقل کیا جائے گا، آخری مرحلے میں غزہ کی پوری آبادی کو اسی علاقے میں بھر دیا جائے گا۔
جب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سال کے آغاز میں یہ تجویز دی کہ بڑی تعداد میں فلسطینیوں کو غزہ سے نکال دینا چاہیے تاکہ اس پٹی کو صاف کیا جا سکے، تب سے وزیرِ اعظم نیتن یاہو سمیت بیشتر اسرائیلی سیاستدان، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے منصوبے کو زور و شور سے فروغ دے رہے ہیں۔
اسرائیل کے معروف انسانی حقوق وکیل مائیکل سفارڈ کے مطابق کسی کو اس کے ملک سے زبردستی نکالنا جنگی جرم ہے اور اگر یہ وسیع پیمانے پر کیا جائے جیسا کہ اس منصوبے میں ہے، تو یہ انسانیت کے خلاف جرم بن جاتا ہے۔
یروشلم میں ہولوکاسٹ کے مؤرخ، پروفیسر گولڈ برگ کا کہنا ہے کہ یہ کوئی شہر نہیں ہے، یہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا واضح پلان ہے کیونکہ شہر وہ ہوتا ہے جہاں روزگار کے مواقع ہوں، سماجی روابط اور نقل و حرکت کی آزادی ہو، جہاں اسپتال، اسکول، جامعات اور دفاتر ہوں لیکن اسرائیلی منصوبے میں ایسا کچھ نہیں ہے۔
پروفیسر گولڈ برگ نے مزید کہا کہ اسرائیلی منصوبے نے فوری طور پر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ ان فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہوگا جو اس نئے کمپاؤنڈ میں منتقل ہونے سے انکار کر دیں گے۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع نے یہ منصوبہ نیتن یاہو کی واشنگٹن آمد کے موقع پر پیش کیا، ان کا کہنا تھا کہ اس حراستی یا ٹرانزٹ شہر پر کام ممکنہ جنگ بندی کے دوران شروع کیا جا سکتا ہے اور نیتن یاہو ایسے ممالک کی تلاش میں ہیں جو فلسطینیوں کو اپنانے پر آمادہ ہوں۔
مغربی خبر رساں ایجنسی نے اپنی رپورٹ بتایا ہے کہ 2 ارب ڈالر کے حراستی کیمپوں کی تعمیر کا پلان غزہ ہیومینیٹرین فاؤنڈیشن نے ٹرمپ انتظامیہ کو پیش کیا تھا۔
یہ وہی فاؤنڈیشن ہے جسے غزہ میں خوراک کی تقسیم کا ٹھیکا دیا گیا ہے اور جس پر بھوک سے نڈہال، نہتے فلسطینیوں پر اندھی فائرنگ کر کے انہیں مارنے کے متعدد واقعات سامنے آ چکے ہیں۔