32 C
Lahore
Tuesday, July 8, 2025
ہومغزہ لہو لہوروہنگیا تو زمین کا بوجھ ہیں

روہنگیا تو زمین کا بوجھ ہیں


یوکرین اور فلسطین پونے تین برس سے عالمی ذرایع ابلاغ کے ریڈار پر یقیناً میرٹ کی بنیاد پر چھائے ہوئے ہیں۔مگر اس کے نتیجے میں دیگر المیوں کو نہ ہونے کے برابر کوریج مل رہی ہے جن میں لاکھوں انسان زندگی اور موت کے درمیان جھولتی الگنی سے لٹک رہے ہیں۔

مثلاً سوڈان میں اپریل دو ہزار تئیس سے جاری خانہ جنگی میں لاکھوں لوگوں کی بے گھری ، ہزاروں ہلاکتیں اور اجتماعی ریپ بطور ہتھیار عالمی میڈیا کی فرنٹ لائن خبر ہی نہیں۔

ان المیوں کے بیچ پچھلی ایک دہائی سے بالخصوص اگر دنیا میں کوئی اقلیت لاوارث ترین کہی جا سکتی ہے تو وہ میانمار کے روہنگیا ہیں۔ اکثر نے سرحد پار بنگلہ دیش میں پناہ لے رکھی ہے۔

مگر اقوامِ متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزینان ( یو این ایچ سی آر ) اور دیگر فلاحی و انسانی حقوق تنظیموں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود روہنگیوں کی حالت سال بہ سال بدتر ہوتی جا رہی ہے۔

بنگلہ دیش نے کچھ عرصے تو میانمار کی سرحد سے متصل چٹاگانگ اور کاکسس بازار کے سرحدی علاقے میں قائم کیمپوں میں ان کی میزبانی کی۔مگر سابق حسینہ واجد حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری دور میں ان کیمپوں میں رہنے والوں کو خلیج بنگال کے دو نسبتاً غیر آباد جزیروں میں منتقل کرنے کی کارروائی کی اور ہزاروں پناہ گزینوں کو جبراً ایسے ماحول میں دھکیل دیا گیا جہاں زندہ رہنے سے بہتر مرنا طے پایا۔

اور پھر حسبِ توقع اس جہنم سے فرار ہو کر نامعلوم منزلوں کی طرف سفر کرنے والے روہنگیوں کی کشتیاں ڈوبنے کی خبریں آنے لگیں۔گزشتہ مئی کی اٹھائیس تاریخ کو پناہ گزینوں کے ادارے یو این ایچ سی آر نے تصدیق کی کہ نو اور دس مئی کو دو کشتیوں میں سوار چار سو ستائیس روہنگیا مرد ، عورتیں ، بچے خلیجِ بنگال میں میانمار کے ساحل کے قریب ڈوب گئے۔ صرف ستاسی زندہ بچے۔

کسی ایک حادثے میں اتنے روہنگیوں کی ہلاکت پہلے کبھی نہیں سنی گئی۔ابھی یہ تصدیق ہونی ہے کہ ان کشتیوں میں میانمار سے فرار ہونے والے تارکِ وطن تھے یا بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں سے فرار ہونے والے روہنگیا تھے۔

دو ہزار سترہ میں میانمار کی فوج اور دائیں بازو کے متشدد بودھ گروہوں کے مظالم سے بچنے کے لیے سرحدی صوبے رخائن سے دس لاکھ سے زائد روہنگیا نے جبری نقلِ مکانی کی۔اس برس اپریل میں میانمار حکومت نے ان میں سے ایک لاکھ اسی ہزار پناہ گزینوں کو اپنا قانونی شہری تسلیم کر لیا۔

چنانچہ بنگلہ دیشی حکومت نے انھیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔تاہم ان میں سے کوئی بھی واپس جانے کو تیار نہیں۔ ان کا سب کچھ پہلے ہی چھن چکا ہے اور واپسی کی صورت میں بھی وہ خوف کی اسی مسلسل کیفیت میں زندگی کاٹیں گے جس سے ڈر کے آٹھ برس پہلے بھاگے تھے۔

بقول ایک روہنگیا کارکن ہم میانمار کے بجائے کسی بھی جہنم میں خوشی خوشی رہنے کو تیار ہیں۔ان میں سے بہت سے اب ڈیپورٹیشن کے ڈر سے بنگلہ دیش سے بھی بھاگ رہے ہیں۔کچھ خوش قسمت سمندر کی لہروں پر ہچکولے کھاتے کھاتے تھائی لینڈ ، ملیشیا اور انڈونیشیا تک پہنچ جاتے ہیں اور بہت سے راستے میں ڈوب جاتے ہیں۔

دو ہزار اٹھارہ میں اسلامی کانفرنس تنظیم کے مغربی افریقی رکن گیمبیا نے پیش کش کی کہ وہ روہنگیا پناہ گزینوں کو اپنانے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ متمول ممالک منتقلی کے اخراجات برداشت کر سکیں۔ ایک بھی مسلمان ملک گیمبیا کی مدد کو نہیں آیا۔( کاش گیمبیا کے صدر کا نام ٹرمپ ہوتا تو اس کی جیبیں اتنی بھر دی جاتیں کہ پھٹ جاتیں )۔

حالیہ برسوں میں کئی ہزار روہنگیا بھارت بھی آن پہنچے۔ان میں سے اکثر کو آسام اور جموں کے پناہ گزیں کیمپوں میں رکھا گیا۔یہ سب یو این ایچ سی آر سے رجسٹرڈ ہیں اور ان کی دیکھ بھال کے اخراجات بھی عالمی تنظیمیں اٹھاتی ہے۔

مگر ان کی اکثریت کو شکائیت ہے کہ حکومت چونکہ ہمیں بن بلائے مہمان سمجھتی ہے لہٰذا بھارتی میڈیا اکثر ان کے مسلمان ہونے کے ناتے دھشت گرد ہونے کا تاثر پھیلاتا رہتا ہے۔پولیس رقم اینٹھنے کے لیے جھوٹے مقدمات بناتی رہتی ہے اور گرفتاریاں بھی کرتی ہے۔مقصد یہی ہے کہ کسی طرح روہنگیا یہاں سے کہیں بھی چلے جائیں۔

اس پس منظر میں ڈیڑھ ماہ قبل بھارت سے ایسی خبر آئی جس نے یو این ایچ سی آر سمیت انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیموں کو جھنجھوڑ ڈالا ۔ہوا یوں کہ چھ مئی کو رات گئے دہلی پولیس نے لگ بھگ ایک سو روہنگیا پناہ گزینوں کو تین علاقوں سے اٹھایا اور یہ بتا کر تھانے لے گئے کہ ہم آپ کو فنگر پرنٹس لے کر چھوڑ دیں گے۔ان میں عورتیں ، بوڑھے ، بچے ، بیمار سب ہی شامل تھے اور سب کے سب اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیناں میں رجسٹرڈ تھے۔

اگلے چوبیس گھنٹے ان سب کو بلا وارنٹ مختلف تھانوں میں رکھا گیا اور کسی مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ پھر انھیں ایک نظربندی مرکز میں یکجا کیا گیا۔ان کے فنگر پرنٹس لیے گئے۔ان میں سے اڑتیس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کے اور ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگا کے بذریعہ طیارہ جزائر انڈمان کے دارالحکومت پورٹ بلئیر پہنچایا گیا۔

پھر انھیں بحریہ کے ایک جہاز پر منتقل کیا گیا۔ مارا پیٹا گیا اور میانمار کی بحری حدود میں لائف جیکٹس دے کر سمندر میں اتار دیا گیا۔ان سے کہا گیا کہ ہم آپ کو انڈونیشیا کی سمندری حدود میں چھوڑ رہے ہیں۔ کچھ لوگ بارہ گھنٹے سمندر میں رہنے کے بعد بھی ساحل تک زندہ پہنچ گئے اور باقیوں کی قسمت نامعلوم ہے۔

دہلی میں دو وکلا نے سپریم کورٹ میں ان روہنگیوں کے اغوا کی درخواست دی ہے اور حکومتِ بھارت کو فریق بنایا ۔درخواست میں کہا گیا کہ پناہ گزینوں کو خاموشی سے سمندر میں دھکیلنے کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ ملک بدری کے بین الاقوامی قواعد و ضوابط پوری طرح پامال کیے گئے۔اقوامِ متحدہ کے متعلقہ اہلکار واردات کی چھان پھٹک کر کے اپنی رپورٹ مرتب کر رہے ہیں۔

اب تک تو ہم یہ سنتے آئے تھے کہ انسانی اسمگلرز بیچ سمندر میں انسانوں کو پھینک دیتے ہیں مگر یہ پہلا موقع ہے جب کسی ریاست نے اس طرح کا جرم کیا ہو۔ حقائق سامنے آبھی گئے تو کیا فرق پڑے گا ؟ روہنگیا تو ویسے بھی زمین کا بوجھ ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات