لاہور:
تجزیہ کار عامر الیاس رانا کا کہنا ہے کہ خبر دینے والے کی اپنی ذمے داری ہے اپنی خبر کی، ظاہر ہے خبر دی گئی، اس پر گوسپ بھی شروع ہو گئے، ٹی وی چینلز نے ویک اینڈ پر اپنے اپنے پروگرام بھی کر لیے، ویک اینڈ کے بعد آج آپ کے ساتھ بھی اسی پہ گفتگو ہو رہی ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بہت سارے لوگوں نے کہا کہ کچھ ہوتا ہے تو بات کی جاتی ہے، اعزاز سید کو کیا پڑی تھی کہ وہ غلط خبر دے دیں۔
تجزیہ کار اطہر کاظمی نے کہا جہاں تک صدر مملکت کے عہدے والی بات ہے وہ تو ہنڈرڈ پرسنٹ بالکل درست بات ہے کہ اس عہدے کے پاس ایسا کوئی اختیار تو ہے نہیںکہ انڈپینڈنٹلی صدر مملکت حکومت کے روز کے امور ہیں ان کے اندر کوئی فعال کردار ادا کر سکیں، ایک طرح سے یہ ایک ایسا ہی عہدہ ہے کہ کسی کو بھی بٹھا دیا جائے تو کیا پورے ملک کے معاملات کو وہ چلا سکیں گے؟ایسا مجھے تو کرنٹ سچویشن میں نظر نہیں آتا، ہاں اگر کوئی ترمیم آتی ہے، کوئی نظام تبدیلی کی بات ہوتی ہے پر کیا وہ اتنا آسان ہوگا؟،خبریں اگر آ رہی ہیں تو کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ گفتگو ہو رہی ہے۔
تجزیہ کار عامر ضیا نے کہاکہ جہاں تک منطق کا تعلق ہے تو مجھے منطقی اعتبار سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے، مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعد بے شک (ن) لیگ کو قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت مل گئی ہے اس کے باوجود یہ حکومت بڑے نازک گراؤنڈ پر کھڑی ہے، پی ٹی آئی جیسی فعال اور متحرک حزب اختلاف کا اس کو سامنا ہے، بے شک وہ اتنا دباؤ نہیں ڈال پا رہی لیکن پوٹینشل چیلنج وہاں پہ ہے، تو مسلم لیگ (ن) کیوں ایک محاذ کھولنا پسند کرے گی،فرض کریں آپ صدر زرداری کو ہٹاتے ہیں تو اس کے بدلے پیپلزپارٹی کو کیا دیں گے؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔