کراچی کے قدیمی علاقے لیاری، بغدادی میں دو روز قبل گرنے والی عمارت کا ملبہ ہٹا دیا گیا، ریسکیو آپریشن کے دوران ملبے سے 27 افراد کی لاشیں نکالی گئیں، 12 زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا، ریسکیو آپریشن مکمل کرنے میں تقریباً 50 سے زائد گھنٹے لگے۔
سندھ حکومت کی نگرانی میں فعال اور موثر ریسکیو آپریشن کیا گیا اور صوبائی حکومت کی موجودگی نظر آئی، لیکن دوسری جانب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، میونسپل کارپوریشن اور دیگر متعلقہ ادارے اس عمارت کی خطرناک حالت سے باخبر تھے، مگر مسلسل تاخیر، نااہلی اور فرائض کی عدم ادائیگی کا مظاہرہ کیا گیا۔
اکثر اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ مالی مجبوریوں کے باعث شہری ان مخدوش عمارتوں کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے، لیکن متعلقہ محکموں کے افسروں اور ملازمین کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ ایسی خطرناک عمارتوں کو مکینوں سے خالی کرانے کے لیے فوری راستہ نکالیں تاکہ انسانی جانوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے، متعلقہ حکام کے علم میں یہ بات پہلے سے تھی کہ یہ عمارت کسی بھی وقت منہدم ہو سکتی ہے، لیکن اسے بروقت خالی کرانے کے لیے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔
ریسکیو آپریشن کے دوران بہت سی کمیاں اور خامیاں عیاں ہوئی ہیں۔ کنکریٹ کاٹنے والی جدید مشینیں نہیں تھیں،ملبے کے نیچے دھبے لوگوں کی نشاندہی کے لیے جدید سنسر مشینیں نہیں تھیں، تربیت یافتہ عملے کی کمی بھی محسوس کی گئی ، اگر یہ سب کچھ ہوتا تو شاید اموات میں کمی ہوتی اورآپریشن بھی جلد مکمل ہوجاتا۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مطابق پورے شہر میں 578 مخدوش عمارتیں ہیں جب کہ سب سے زیادہ ناقابل رہائش عمارتوں کی تعداد کراچی کے ضلع جنوبی میں 456 ہے۔ لیکن مخدوش عمارتوں کو خالی کرانے کے عملی اقدامات نہیں کیے گئے، ہر سال مون سون سیزن سے قبل مخدوش عمارتوں پر بینرز لگائے جاتے ہیں اور اس کے بعد حادثہ ہونے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ صرف ایک حادثہ نہیں بلکہ سرکاری مشینری کی غفلت کو بھی ظاہر کرتا ہے، جو ہمارے سول اداروں کی کارکردگی پر کئی سوالات کھڑے کرتا ہے۔
چند روز قبل صوبہ خیبر پختون خوا کے سیاحتی علاقے سوات میں دریا سوات کے پانی میں سیالکوٹ سے آئے ہوئے کئی شہری بہہ گئے اور وہ ڈوب کر جاں بحق ہوگئے ، حالانکہ ان سب کی جانیں با آسانی بچائی جاسکتی تھیں لیکن مقام افسوس ہے کہ سول انتظامی ادارے حرکت میں ہی نہ آسکے اور سب لوگ پانی کی نذر ہوگئے۔
بعد ازاں جو تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی، اس میں سیاحوں کو ہی قصور وار ٹھہرا کر محکموں کی افسر شاہی اور خیبر پختونخوا کی حکومت نے اپنی جان چھڑا لی۔ سانحہ سوات کی المناکی یہ ہے کہ دریا میں بہنے والے لوگ سو دو سو میٹر کے فاصلے پر خاصی دیر اونچے ٹیلے پر کھڑے رہے، ٹریجڈی دیکھیں کہ وہاں کوئی لائف جیکٹس ، پلاسٹک ٹیوبز یا طویل رسی یا کیبل تک نہیں پہنچائی جاسکی یا وہاں کسی ہوٹل نے بھی ان چیزوں کا بندوبست نہیں کر رکھا تھا۔
موٹر بوٹس نہیں تھیں، سول انتظامیہ کے افسر اور ملازمین موجود ہیں، سرکاری خزانے سے تنخواہیں، مراعات اور الاونسز لے رہے ہیں لیکن جب ڈیوٹی کی باری آئی تو سب فیل ہوگئے ، انتظامیہ سے کام لینا صوبائی وزیراعلیٰ ، کابینہ اور معاونین کی بنیادی ذمے داری ہے، یہ آئین اور قانون کہتا ہے، انھیں تنخواہیں اور مراعات اسی آئینی و قانونی ڈیوٹی کے عوض ادا کی جاتی ہیں اور عام شہری اپنی کمائی سے ٹیکس دے کر یہ رقم پوری کرتے ہیں لیکن اس کے بدلے میں عوام کو کیا ملتا ہے۔
ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم سانحہ ہونے کے بعد صرف مذمتی بیانات دیتے ہیں، تعزیتی پیغامات جاری کرتے ہیں اور چند دن کی سرکاری سرگرمیوں کے بعد معاملہ سرد خانے کی نذر ہو جاتا ہے۔ حالیہ دونوں واقعات نے ایک مرتبہ پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہمارے ملک میں صوبائی ، ضلعی ادارے اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے ادارے مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔
ملک میں ہر سال مون سون کے موسم میں سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے، دریا بپھر جاتے ہیں، گلیاں پانی سے بھر جاتی ہیں، نالے ابل پڑتے ہیں اور نشیبی علاقے زیر آب آ جاتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود کسی بھی سال قبل از وقت اقدامات ہوتے نظر نہیں آتے۔ متاثرہ علاقوں میں نہ تو بچاؤ کی تیاری کی جاتی ہے، نہ ہی عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا نظام موجود ہے جس سے ممکنہ خطرے کی اطلاع دی جا سکے۔
ہمارے سرکاری ادارے غیر فعال ہو چکے ہیں۔ افسروں اور ملازمین میں نہ تو صلاحیت ہے، نہ نظم و ضبط، نہ ہی مستقبل کی پیش بینی کی صلاحیت اور تربیت ۔ سرکاری اداروں میں اقربا پروری، سیاسی مداخلت، کرپشن اور نااہلی نے اس قدر جڑیں پکڑ لی ہیں کہ بنیادی خدمات بھی فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ ادارے جو عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہیں اور مراعات حاصل کرتے ہیں، ان کی کارکردگی اس بات کی عکاس ہے کہ عوامی خدمت ان کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔
ملک کے مختلف علاقوں میں ہر سال آتشزدگی کے واقعات ہوتے ہیں، جن میں قیمتی جانیں اور املاک تباہ ہو جاتی ہیں، لیکن آج بھی بیشتر شہروں میں فائر بریگیڈ کے پاس بنیادی سامان موجود نہیں۔عملہ تربیت یافتہ نہیں، اور کئی مقامات پر تو کال موصول ہونے کے باوجود بروقت نہیں پہنچا جاتا۔ ناگہانی آفات جیسے زلزلے، بارشیں، لینڈ سلائیڈنگ یا طوفان جیسے حالات میں ہمارے پاس نہ تو پیشگی وارننگ کا نظام ہے اور نہ ہی فوری ریلیف کا مؤثر انتظام۔ ایسے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر صرف آہیں بھرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔
ان مسائل کے حل کے لیے محض اعلانات یا بیانات کافی نہیں۔ ہمیں اس پورے نظام کی ازسر ِنو تشکیل کرنا ہوگی۔ سب سے پہلے تو یہ ضروری ہے کہ تمام شہری اداروں کی ازسرنو تنظیم کی جائے، ان کے اختیارات اور ذمے داریوں کا واضح تعین ہو، اور ان پر کڑی نگرانی کی جائے۔ ایسے افسران اور ملازمین جو اپنی ذمے داریوں سے غفلت برتتے ہیں، انھیں صرف معطل یا تبادلے کی سزا نہ دی جائے بلکہ قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔
عوام کے جان و مال کی حفاظت ایک قومی فرض ہے اور جو اس فرض کی ادائیگی میں ناکام ہو، اسے جوابدہ بنایا جانا چاہیے۔ علاوہ ازیں، ریسکیو 1122 جیسے ادارے جنھیں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قائم کیا گیا ہے، انھیں ہر شہر، ہر ضلع اور تحصیل میں مکمل فعال کیا جائے۔ ان اداروں کو جدید آلات، گاڑیوں، اور تربیت یافتہ عملے سے لیس کیا جائے، ان اداروں کی کارکردگی کی سالانہ بنیادوں پر جانچ ہونی چاہیے تاکہ ان میں بہتری لائی جا سکے۔
کوئی شک نہیں کہ آج ہم گورننس کے بدترین فقدان کا شکار ہیں، ہمارے پاس قوانین تو بے شمار ہیں مگر عملدرآمد نظر نہیں آتا، جب ہر ادارے میں تعیناتیاں اہلیت، قابلیت اور شفافیت کے بجائے ذاتی پسند نا پسند اور چمک کی بنیادوں پر ہوں تو گورننس کیسے بہتر ہو سکتی ہے؟ ایک فلاحی ریاست جہاں گورننس کا مقصد عوام کا معاشی و سماجی تحفظ‘ قانون کی بالادستی اور انصاف کی فراہمی ہونا چاہیے تھا وہ اندھیر نگری چوپٹ راج میں بدل گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں بدامنی، قانون کی عدم حکمرانی، مہنگائی اور لوٹ مار جیسے سنگین مسائل پر قابو پانے کے لیے کوئی ٹھوس عملی اقدام نظر نہیں آتا۔
کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کے انتظامات موجود نہیں، نومولود بچوں کے دودھ کی ملاوٹ سے لے کر لائف سیونگ دوائیوں کی ملاوٹ اور قلت جیسے جرائم بے باکی کے ساتھ ہورہے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں دل کے مریضوں کو جعلی اسٹنٹس ڈالے جاتے ہیں‘ سروس ڈلیوری کے محکموں میں سائلین کی توہین و تذلیل روزمرہ کا معمول بن چکی ہے، ہر جگہ اقربا پروری، کنبہ پروری، رشوت خوری اور سفارشی کلچر کا بول بالا ہے۔ ملک میں ہر جگہ خطرناک عمارتیں، کھلے نالے، بغیر حفاظتی جنگلے کے دریا کے کنارے، اور دیگر خطرناک مقامات موجود ہیں، جن پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، اگر ہم ہر سال سیکڑوں افراد کو انھی وجوہات کے باعث کھوتے رہے، تو یہ نہ صرف انسانی المیہ ہو گا بلکہ حکومتی ناکامی کا کھلا ثبوت بھی۔
آخر میں یہ کہنا بجا ہو گا کہ محض حادثات کے بعد غم و غصے کا اظہار کرنا یا چند دن کا دکھ منانا کافی نہیں۔ جب تک ہم ان واقعات کے اسباب کا سنجیدگی سے جائزہ لے کر اصلاحی اقدامات نہیں کرتے، ایسے حادثات رونما ہوتے رہیں گے۔ ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ ہم ایک ایسا معاشرہ چاہتے ہیں جہاں ادارے صرف فائلوں میں موجود ہوں یا ایک ایسا نظام چاہتے ہیں جو ہر شہری کو تحفظ فراہم کرے، ان کی جان، مال، عزت اور وقار کا محافظ ہو۔ وقت آ چکا ہے کہ ہم اس سوال کا سنجیدہ جواب تلاش کریں اور اپنے اداروں کو جگائیں، وگرنہ ہر سال کے حادثات صرف چند نام، چند آنسو اور چند تعزیتی بیانات چھوڑ جائیں گے۔