36 C
Lahore
Saturday, July 5, 2025
ہومغزہ لہو لہومالی سال 2024-25 کے تجارت خارجہ کے اعداد و شمار

مالی سال 2024-25 کے تجارت خارجہ کے اعداد و شمار


معیشت کا اہم ترین شعبہ تجارت خارجہ جو واضح کرتا ہے کہ قوم کی محنت ، صنعت کی رفتار اور صلاحیتوں کے بل بوتے پر کیا ایکسپورٹ کیا اور اپنی ضرورتوں کے لیے، صنعتوں کے لیے کبھی مشینری کی صورت کبھی موبائل فون کی صورت میں کیا امپورٹ کیا ہے۔ سال بھر ہم کوشش کرتے رہے، لیکن تصویر الجھی ہوئی برآمد ہوئی اور درآمدات کا پلہ بھاری رہا۔ کیونکہ ہم چاول بیچتے رہے اور موبائل خریدتے رہے۔

پہلے کپاس بیچتے رہے تھے اب گزشتہ مالی سال کے دوران اربوں ڈالر کی کپاس خریدتے رہے۔ ادھر ٹیکسٹائل کی سست روی، چینی کی کم پیداوار یا بلاوجہ برآمدات اور اب رواں مالی سال میں 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کر کے تجارتی خسارے میں بے بہا اضافہ کر لیں گے۔ سال گزشتہ برآمدات نے محض 4.57 فی صد کا اضافہ ظاہر کیا ہے۔ معیشت نے بھیانک رخ اختیار کر لیا ہے، اب صنعتکار پیداواری جھنجھٹوں کو پالنے کے بجائے وہ امپورٹ کو سہل سمجھ کر وہ کئی شے امپورٹ کر رہا ہے۔ اس طرح درآمدات میں 6.57 فی صد کا اضافہ محسوس ہوا۔

برآمدات کا حجم 32 ارب 10 کروڑ60 لاکھ ڈالرز کا تھا اور اس سے گزشتہ سے پیوستہ مالی سال برآمدات کا حجم 30 ارب 67 کروڑ50 لاکھ ڈالرز کا تھا۔ اس طرح محض 4.67 فی صد کا اضافہ اگرچہ مایوسی میں روشنی کی ایک کرن ہی سہی مگر درآمدات کا بڑھتا ہوا حجم اس کرن کو پھر اندھیرے میں جھونک دیتا ہے۔

تفصیل کچھ یوں ہے کہ گزشتہ مالی سال کی کل درآمدات 58 ارب 38 کروڑ ڈالر رہیں اور اس سے بھی گزشتہ مالی سال 2023-24 کی کل برآمدات 54 ارب 77 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز کے باعث 6.57 فی صد کا اگرچہ معمولی مگر درحقیقت بھاری بھرکم اضافہ محسوس ہوا۔ یعنی ہم ایسے عالمی بازار میں جا پہنچے جہاں ہماری اشیا کی قیمت کم لگی اور جو بھی شے ہم نے خریدی اس کے بڑھتے ہوئے دام لگائے گئے، اس طرح تجارتی خسارے میں 9 فی صد کا اضافہ ہوا اور یہ خسارہ اگر ہم محسوس کریں تو حکمت عملی، صنعتی پالیسی اور معاشی وژن کا خسارہ ہے۔ اس طرح ہم مستقل ترقی کی راہ پر ابھی گامزن نہ ہو سکے، البتہ Import led Growth کی نشان دہی ہو رہی ہے۔

ملکی معیشت پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے، امپورٹ کرتے ہوئے لاجسٹک اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں، انشورنس چارجز میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ملک میں بجلی، گیس کے نرخ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں فیکٹری بند کرنے میں عافیت سمجھی جا رہی ہے۔ عالمی منظرنامہ بھی عجیب رنگ دکھا رہا ہے۔ دنیا بھر میں مہنگائی کا دباؤ موجود ہے۔ دنیا میں مہنگائی کا طوفان بڑھتا جا رہا ہے اور بڑھتے چلا جا رہا ہے، اشیا مہنگی ہوتی چلی جا رہی ہیں، خام تیل کھانے کا تیل کپاس چائے دالوں کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے۔

ان اشیا کو پاکستان لانا بھی بہت مہنگا ہو کر رہ گیا ہے۔ کیونکہ کنٹینرز اور دیگر اخراجات میں اضافہ ہوگیا۔ عالمی سیاسی بے یقینی کے حالات نے اپنا گہرا اثر چھوڑا ہوا ہے جیسے یوکرین جنگ، مشرق وسطیٰ کی کشیدگی، ایران اسرائیل جنگ جو کہ پہلے ہی ایران پر زبردستی تھوپ دی گئی تھی، اس کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ کے بیانات عالمی سیاست کو مزید کشیدگی کی طرف لے کر جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے ملک میں ڈالر ریٹ بڑھ رہا ہے اور روپے کی قدر میں کمی ہو رہی ہے۔ چند ہفتوں قبل ایک ڈالر 278 روپے کا تھا اب 284 کا ہو گیا ہے۔ پٹرول کی عالمی قیمت میں ایران اسرائیل جنگ کے آغاز کے ساتھ اضافہ ہوا اس کے ساتھ ہی پاکستان نے پٹرول کے نرخ بڑھا دیے۔ یکم جولائی سے دوبارہ پھر بڑھا دیے۔

برآمدات میں زبردست اضافے کی بات کرتے ہیں لیکن غیر روایتی منڈیوں افریقہ، وسطی ایشیا، مشرق بعید کی طرف نہیں دیکھتے۔ اب کہیں جا کر پاک روس مال گاڑی چلنے کی امید پیدا ہوئی ہے جس سے پاکستان کے ایران، وسطی ایشیائی ملکوں اور روس کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہوگا۔ روسی کرنسی میں تجارت کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

توانائی کی قیمت میں کمی دراصل قومی صنعت کو آکسیجن دینے کے مترادف ہے۔ اب جا کر یکم جولائی سے محض برائے نام ایک روپیہ 15 پیسے فی یونٹ کی کمی کو عوام کے لیے بڑا ریلیف سمجھا جا رہا ہے جب کہ بجلی بل اسی طرح 25 یا 30 ہزار سے شروع ہو کر لاکھوں روپے تک پہنچ رہے ہیں حکومت کو اس سے کوئی سروکار نہیں، قرض لیں، ادھار لیں، اپنا سامان بیچیں، ورنہ بجلی کٹ جائے گی، لہٰذا کچھ بھی ہو بجلی کے بل وقت پر ادا کردیں۔

دراصل ہم نے آئی ایم ایف کو بطور جراح بلایا تھا، لیکن اس جراحی کے عمل میں دیگر باتوں کا تذکرہ کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کی اہم ترین شرط کا تذکرہ کرنا سودمند ثابت ہوگا۔ اہم شرط یہ ہوتی ہے کہ روپے کی قدر گھٹاؤ، اس سے ملک کو فائدہ ہوگا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ 25 کروڑ آبادی والے ملک کی برآمدات محض 32 ارب ڈالرز اور روپے کی قدر گھٹنے سے درآمدی اشیا کی قیمتیں پاکستان میں بے انتہا مہنگی محسوس کی جا رہی ہیں۔

پھر بجلی گیس پانی کے نرخوں میں اضافے نے صنعتی لاگت بڑھا دی ہے۔ عالمی منڈی میں پاکستانی برآمدات کو مہنگا محسوس کیا جا رہا ہے۔ ایسے میں برآمدات میں سست رفتاری سے اضافہ جیسے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے لیکن 5 فی صد کبھی 7 فی صد اضافہ اور اس کے مقابلے میں درآمدات میں دگنا کبھی تین گنا اضافے نے ملکی معیشت کو بے بس، بے چین و بے قرار کر دیا ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات