35 C
Lahore
Friday, July 4, 2025
ہومغزہ لہو لہوپوری کی پوری بہادری - ایکسپریس اردو

پوری کی پوری بہادری – ایکسپریس اردو


ہم کوئی بڑے تو کیا چھوٹے موٹے دانا دانشور بھی نہیں جو بڑے بڑے اقوامی یا بین الاقوامی معاملات پر بڑا بڑا لکھیں اور اس ٹرمپو اور پوٹنپو یا اپنے بڑے بڑے بڑوں کو مشورے دیں، اس لیے چھوٹے چھوٹے ٹونے ٹوٹکوں سے کام چلاتے ہیں اور یہ ٹونے ٹوٹکے ہمارے پاس بے شمار ہیں۔

کیونکہ ہم کالانعاموں میں سے ہیں اور زندگی کے ہر میدان میں پیٹ بھر کر مار کھا رہے ہیں،گل معروف کی طرح۔گل معروف کو طفلان خوش نما پر مرمٹنے کا عارضہ لاحق تھا اور گاؤں میں ایک ایسا کوئی طفل باقی نہیں رہا تھا جو بچپن سے جوانی کو پہنچا ہو اور گل معروف اس پر لٹو نہ ہوا ہو۔چنانچہ وہ اپنی کوالی فیکشن یہ بتاتا تھا کہ گاؤں میں ایسا کوئی ڈیرہ یا بیٹھک باقی نہیں ہے جہاں میں نے مار نہ کھائی ہو۔ کچھ ایسی کوالی فیکشن ہماری بھی ہے حالانکہ ہم کسی پر عاشق بھی نہیں ہوئے۔ہم آج جو نادر ونایاب ٹوٹکہ آپ کو بتانے والے ہیں، اس کا نام پوری بہادری ہے۔

پشتو میں کہاوت ہے کہ بھاگنا آدھی بہادری ہے لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ ’’بزدلی‘‘ پوری کی پوری بہادری ہے اور یہ اس پوری بہادری کی برکت ہے کہ ہمیں کبھی آدھی بہادری دکھانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔خیر ایک مرتبہ ہوا یہ کہ ہم پڑوسی ملک کے شہر لکھنو ایک صوفی کانفرنس کے لیے گئے تھے اور ایک ہوٹل میں مقیم تھے۔ پاکستانی وفد میں مختلف شہروں کے کچھ اور مرد و خواتین بھی شرکاء میں سے تھے۔ایسے مواقع پر ہم اپنے پاسبان عقل کو گھر ہی میں ایک ستون سے باندھ دیتے ہیں اور اپنی مہار دل کو سونپ کر روانہ ہوجاتے ہیں۔

ایسی کانفرنسوں میں اکثریت بہت ہی بور،بورا بوری قسم کے دانشور اپنے ساتھ بوریت کے بورے لاچکے ہوتے ہیں چنانچہ اکثر لوگ ہالوں سے باہر ہوتے ہیں۔اور ہم بھی کہیں اپنا تکیہ یا زاویہ لگالیتے ہیں، نہایت ہی بے وضو اور بے تیمم قسم کی خرافات بکتے ہیں ۔اس کانفرنس میں بھی یہی ہوا، ہم نے ایک جگہ اپنا ٹھیہ سجالیا تھا۔اور چونکہ کانفرنس میں اندازگل افشانی گفتار کا سامان بھی بہت تھا لیکن یہ وہ سامان نہیں تھا جو مرشد کی گل افشانی گفتار کو بڑھاوا دیتا ہے۔بلکہ نوجوان نسوانی چہرے تھے جن میں اکثر فلسفے،نفسیات اور طبعیات کی اسٹوڈنٹس تھیں جو بور مضامین اور بورترین اساتذہ کی ڈسی ہوئی تھیں اور ہنسنے مسکرانے کو ترسی ہوئی ہوتی ہیں۔

موت بھی اس لیے گوارا ہے

موت آتا نہیں ہے آتی ہے

لیکن اگر وہ نہ بھی ہوتیں تو ہماری گل افشانی گفتار کے لیے وہ اکلوتی ہی کافی تھی جو ہمارے پاکستانی وفد میں شامل تھی اور اس کا تعلق کراچی سے تھا۔وہ ہر لحاظ سے ایک کھلتا ہوا گلاب تھی اور جب وہ ہنستی تھی تو جلترنگ بجا دیتی تھی، وہ کچھ زیادہ ہی ہماری خرافات سے متاثر تھی ۔ہوٹل میں اس کا کمرہ بھی ہمارے کمرے کے ساتھ تھا جس میں وہ دو اور ادھیڑ عمر کی خواتین کے ساتھ مقیم تھی۔

ناشتے اور کھانے کی میز پر بھی وہ ہمارے ساتھ بیٹھ جاتی تھی اور ہمیں چیزیں لا لا کر دیتی تھی جس سے ہمارا حوصلہ کافی بڑھ گیا تھا۔اور گل افشانی گفتار کچھ اور تیز ہوگئی تھی۔کانفرنس کی آخری رات تھی اور کل کے لیے ہم نے بوریا بستر باندھنا تھا۔رات کے کوئی بارہ بجے ہوں گے، ہم کمرے کے ٹی وی پر فلم دیکھ رہے تھے اور بستر میں نیم دراز تھے۔پیر اور آدھا دھڑ کمبل میں ملفوف تھا کہ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ہم نے کہا آجایئے۔دروازہ کھلا ہے، ہم سمجھے ہوٹل کا کوئی بندہ ہوگا یا کانفرنس والے۔لیکن جب دروازہ کھلا تو ہمارے لیے جیسے چکاچوند ہوگئی۔

شب ہوئی پھر انجم رخشندہ کا منظر کھلا

اس تکلف سے گویا بتکدے کا در کھلا

 ہمارے شیطانی نگاہوں کو وہ کچھ اور تباہ کن لگ رہی تھی ، اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی ۔سلام کے بعد وہ آکر ہمارے بستر پر ہی بیٹھ گئی ۔ خشگوار باتیں ہوتی رہیں، قہقے لگتے رہے ۔ پھر وہ گویا ہوئی، چائے بناؤں آپ کے لیے؟

دے دی ہے ترے حسن نے سجدے کی اجازت

اب ایسی نمازوں کو قضا کون کرے گا

چائے کا انتظام کمرے ہی میں موجود تھا۔ بجلی کی کیتلی۔اور کافی ،چائے،شکر، دودھ۔وہ اٹھی اور چائے بنانے لگی۔ادھر ہمارے دل میں کھبلی مچ رہی تھی۔

ہاتھ اٹھے تھی کہ ہاروں کی لڑی ٹوٹ پڑی

صدقہ پھولوں نے اتارا تری انگڑائی کا

وہ چائے بنا رہی تھی اور میں اپنی حکمت عملی بنارہا تھا، وہ چائے لائی، ہم پیتے رہے اور ابتدا کرنے کے پرتول رہے تھے، اس وقت یادداشت میں وہ تمام فلمیں اور ڈرامے گھوم رہے تھے جن میں نوجوان لڑکیوں نے بوڑھوں پر عاشق ہونے کے مظاہرے کیے تھے۔ چائے پینے کے دوران میں نے اچانک حملہ آور ہونے کے بارے میں سوچا۔سیدھے سیدھے ہاتھ بڑھا کر بانہوں میں بھرلوں۔کہاں پر ہاتھ رکھنے سے آغاز کروں؟ لیکن ہاتھ کو متحرک کیا تو نہ جانے کہاں سے اس کم بخت بزدلی نے آخر پکڑ لیا۔

ہم نے دوسرے ہاتھ کو پیچھے سے لاکر اور زلفوں بھرے کاندھوں پر رکھ کر اپنی طرف کھینچنے کے لیے متحرک کرنا چاہا لیکن پھر وہ کم بخت بزدلی درمیان میں آگئی، اسے ایک زور کا جھانپڑ رسید کرکے ہاتھ بڑھایا تو وہ بول پڑی، بڑا مزہ آیا۔ دراصل اس وقت جب میں گھر میں ہوتی ہوں تو دو پیالی چائے بنا کر اپنے ابا جان کے کمرے میں ان سے باتیں کرنے چلی جاتی ہوں، پھر ہم چائے پیتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتیں کرتے ہیں۔

آج ان کی یاد آئی تو میں نے سوچا ، ابا جان نہ سہی ، آپ بھی میرے لیے انھیں کی طرح ہیں۔ ان الفاظ کے ساتھ ہی مجھ پر جیسے کسی نے برف کا پانی ڈال دیا ہو۔وہ چلی گئی تو میں نے اپنی بزدلی کو اٹھا لیا اور اسے بے تحاشا چومنا شروع کیا۔اور پھر اسے لپٹا کر اپنے ساتھ لٹا لیا اور کمبل کھینچ لیا۔میری پیاری پیاری پیاری بزدلی اور پوری بہادری۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات