انرجی تھنک ٹینگ Ember کی نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ BRICS کے 10 ممالک نے 2024 میں عالمی سطح پر شمسی توانائی سے ہونے والی بجلی کی پیداوار کا نصف سے زیادہ (51 فی صد) حصہ بنایا ہے۔ BRICS سمٹ سے قبل یہ اعداد و شمار عالمی توانائی کی منتقلی میں اس بڑے شفٹ کو واضح کرتے ہوئے بلاک کی پوزیشن مرکزی کھلاڑی کے طور پر مستحکم کرتے ہیں۔
Ember کے تجزیے میں اس بات کی نشان دہی کی گئی ہے کہ کس طرح چین، بھارت اور برازیل توانائی کے ذرائع کی اس منتقلی میں مرکزی کردار بن کر ابھرے ہیں۔
2024 میں چین شمسی توانائی سے 834 ٹیرا واٹ آور بجلی پیدا کر کے دنیا کا سب سے بڑا پیداواری ملک برقرار رہا۔ یہ مقدار دوسرے نمبر پر موجود امریکا کی پیداوار سے تین گُنا سے زیادہ ہے۔
2019 کے مقابلے میں چار گُنا اضافے کے بعد بھارت کی پیداوار 133 ٹیرا واٹ آور رہی جبکہ برازیل 75 ٹیرا واٹ آور پیداوار کے بعد جرمنی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ٹاپ پانچ ممالک میں شامل ہوگیا۔
یہ اضافہ صرف مجموعی پیداوار میں نہیں بلکہ ماحول دوست ذرائع سے توانائی کی مانگ کے حصے میں بھی ہے۔ 2024 میں BRICS ممالک میں بجلی کی پیداوار کے اضافے میں 36 فی صد حصہ صرف شمسی توانائی کا رہا جو کہ گزشتہ دہائی میں 14 فی صد اور گزشتہ سے پیوستہ دہائی میں 0.25 فی صد سے ایک بڑی چھلانگ ہے۔ شمسی توانائی کے دیگر ماحول دوست ذرائع جیسے کہ ہوائی، آبی اور جوہری ذرائع کے ساتھ ملا کر 2024 میں ماحول دوست توانائی کے ذرائع سے بجلی کی پیداوار میں 70 فی صد کا اضافہ ہوا۔
Ember میں سینئر الیکٹرسٹی تجزیہ کار موئی یینگ کا کہنا تھا کہ BRICS ممالک صاف توانائی پر منتقلی میں اب سائیڈ پر نہیں بلکہ مرکز میں ہیں۔ یہ ممالک عالمی سطح پر شمسی توانائی سے بجلی کی مجموعی پیداوار میں نصف سے زیادہ حصہ ڈال رہے ہیں۔
اس منتقلی کے عمل میں چین سب سے آگے ہے۔ چین میں ماحول دوست ذرائع سے صاف توانائی میں 82 فی صد اضافہ ہوا جس میں 41 فی صد حصہ صرف شمسی توانائی کا تھا۔
Ember کا حالیہ ڈیٹا بتاتا ہے کہ 2025 میں جنوری تا مئی چین میں اضافی بجلی کی طلب کو صاف توانائی سے پورا کیا گیا۔ ہوائی توانائی اور دیگر ماحول دوست ذرائع کے ساتھ شمسی توانائی میں تیزی سے نمو سے ملک میں فاسل ایندھن سے بجلی کی پیداوار میں واضح کمی واقع ہوئی۔
بھارت اور برازیل میں بھی 2025 میں جنوری تا اپریل بالترتیب 32 اور 35 فی صد اضافہ ہوا۔