35 C
Lahore
Friday, July 4, 2025
ہومغزہ لہو لہوکورم کا مسئلہ کیوں نہیں ہوگا؟

کورم کا مسئلہ کیوں نہیں ہوگا؟


روزنامہ ایکسپریس کے مطابق سینیٹ اجلاس میں کورم کی نشان دہی پر مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ برہم ہو گئے اور سیدل خان نے پی ٹی آئی کے سینیٹر کی نشان دہی پر کہا کہ ’’کچھ لوگوں کو ایوان چلتا اچھا نہیں لگتا، کیا آپ صرف اس کام کے لیے اپنے علاقے سے ایوان میں آئے ہیں؟‘‘ کیا کورم کی نشان دہی کو سینیٹر کا جرم سمجھا گیا، کیونکہ کورم واقعی پورا نہیں تھا جس پر ڈپٹی چیئرمین کے حکم پر پانچ منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں جس پر ایوان سے باہر موجود بعض وزرا اور سینیٹر ایوان میں آئے تو کورم پورا ہوا، جس کے بعد کارروائی کچھ دیر چلی اور بعد میں اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔

ایوان سے باہر وزیر اور سینیٹر اگر پہلے ہی ایوان میں موجود ہوتے تو کورم کی نشان دہی نہ ہوتی اور بغیرکورم اجلاس جاری رہتا۔ کورم کی نشان دہی سینیٹروں کا فرض تو بنتا ہی ہے مگر اس سے زیادہ ذمے داری ایوان میں اجلاس کی صدارت کرنے والے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور دونوں کے نہ ہونے پر متعلقہ پریزائیڈنگ افسر کی بنتی ہے کہ وہ بڑے ایوان میں چند سینیٹر دیکھ کر خود کی کارروائی روک دیں اورکورم پورا کرانے کے لیے گھنٹیاں بجوا کر سینیٹروں اور وزیروں کو ایوان میں طلب کریں اور ایوان سے باہر رہنے والوں کی سرزنش کریں کہ کیا وہ ایوان سے غیر حاضر رہنے کے لیے سینیٹر منتخب ہوئے تھے کہ وہ اپنے علاقوں سے سینیٹ اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد آتے ہیں اور ایوان میں آ کر بیٹھنے کے بجائے ایوان سے باہرکیوں مصروف ہوتے ہیں۔

کورم کی جائز نشان دہی کرنے والے سینیٹر پر برہم ہونے کے  بجائے ان کی ستائش کی جانی چاہیے تھی کہ انھوں نے کورم کی نشان دہی کرکے قانونی ذمے داری پوری کی، کوئی غلط کام نہیں کیا، اگر کابینہ کی فوج میں موجود وزرا کی پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں شرکت لازمی کر لیں تب بھی کورم پورا ہو سکتا ہے۔بعض وزیروں نے تو اپنا اصول بنایا ہوا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ بعض وفاقی وزرا اور وزیر اعظم کبھی کبھی قومی اسمبلی کے ایوان میں آجاتے ہیں۔

قومی اسمبلی میں وزیروں کی تعداد اس دن زیادہ ہوتی ہے جب وزیر اعظم نے کسی ضروری کام سے ایوان میں آنا ہوتا ہے تو وہ باہر کی تمام مصروفیات چھوڑ کر وزیر اعظم کو دکھانے کے لیے ایوان میں آتے ہیں ورنہ ان کی طرف سے ان کے محکموں کے وزرائے مملکت یا پارلیمانی سیکریٹری ہی ایوان میں آ کر پوچھے ہوئے سوالات کے جواب دیتے ہیں اور یہی حال قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت کا ہے۔ سرکاری ارکان بھی زیادہ تر قومی اسمبلی کے ایوان میں نہیں آتے اور اگر آتے ہیں تو زیادہ تر خاموش رہتے ہیں اور بہت ہی کم بولتے ہیں یا ذاتی معاملے پر بولتے ہیں اور وزیر اعظم کی آمد پر انھیں چہرہ دکھانے اور ملنے کے لیے آتے ہیں اور تالیاں بجانے میں پیش پیش ضرور ہوتے ہیں۔

ارکان اسمبلی اور سینیٹروں کا ہجوم ایوانوں میں وزیر اعظم کی آمد پر اس لیے زیادہ ہوتا ہے کہ وزیر اعظم اکثر ارکان کو ملنے کا وقت نہیں دیتے اور وہ قومی اسمبلی کے ایوان میں کم آتے ہیں اور اسی ایوان سے منتخب ہونے کے بعد انھیں قومی اسمبلی غیر اہم لگنے لگتی ہے۔ حکومت کو اپنے مطلب کی قانون سازی کرنی ہو، بجٹ پاس کرانا ہو تو وزیر اعظم ایوان میںآتے ہیں اور صدر مملکت کے سال میں ایک بار پارلیمنٹ سے خطاب کے موقع پر وزیر اعظم، اسپیکر اور چیئرمین سینیٹ ضرور موجود ہوتے ہیں۔ ضرورت پر حکومت اپنے ارکان اور سینیٹروں کو تاکید کرا کر ایوان میں بلواتی ہے۔

پی ٹی آئی کے وزیر اعظم نے تو خود اعتراف کیا تھا کہ ان کی حکومت میں تو دباؤ ڈال کر بجٹ پاس کرانا پڑتا تھا۔ سینیٹ بالاتر ادارہ ہے مگر نام کا کہ جہاں وزیر اعظم آنا ہی گوارا نہیں کرتے تو ان کے وزرا کیوں سینیٹ کو اہمیت دیں اور اسی لیے سینیٹ میں وزرا بھی برائے نام ہی آتے ہیں۔پاکستانی پارلیمنٹ قومی اسمبلی اور سینیٹ پر مشتمل ہے اور سینیٹ بالا ادارہ کہلاتا ہے ۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے ایک سال تک سینیٹ کے اجلاس میں شرکت نہیں کی تھی اور تنقید کے بعد وہ سینیٹ کے اجلاس میں گئے تھے۔ سینیٹ کی بالاتری صرف یہ ہے کہ صدر مملکت کے ملک سے باہر جانے یا فوت ہو جانے پر چیئرمین سینیٹ آئینی طور پر ملک کا قائم مقام صدر بن جاتا ہے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی صدارت بھی چیئرمین سینیٹ کے بجائے قومی اسمبلی کا اسپیکر کرتا ہے جب کہ صدر مملکت کی ملک سے باہر جانے کے بعد اگر چیئرمین سینیٹ بھی ملک سے باہر ہو تو قومی اسمبلی کا اسپیکر قائم مقام صدر بن سکتا ہے۔

الزام لگایا جاتا ہے کہ سینیٹ میں سینیٹر بننے کے لیے ارکان اسمبلی کو رشوت دے کر ان کے ووٹ خریدے جاتے ہیں اور پارٹی ہدایت پر ووٹ نہیں دیتے۔سیاسی پارٹیاں بھی اتنی مجبور ہو جاتی ہیں کہ وہ اپنی ہدایت کے برعکس ووٹ نہ دینے والے سینیٹروں کے خلاف کارروائی کرنے کے  بجائے خاموش ہو جاتی ہیں جس کی مثال پی ٹی آئی حکومت میں (ن) لیگ کے وہ 8 سینیٹر تھے جنھوں نے پارٹی کی ہدایت پر ووٹ نہیں دیا تھا اور ان کی نشان دہی بھی کرلی گئی تھی۔

سینیٹ کیا بالاتر ہے جو حکومتی اہم فیصلوں پر اثرانداز ہو سکتی ہے نہ قومی بجٹ کی منظوری میں اس کا کوئی کردار ہوتا ہے۔ یہ ایوان بالا کیا صرف تجاویز اور سفارشات کے لیے رہ گیا ہے اور قومی خزانے پر بوجھ ہے جس کے اپنے سینیٹر بھی اجلاسوں میں شرکت نہیں کرتے تو وہاں کورم کا مسئلہ کیوں نہیں ہوگا؟ پارلیمنٹ میں کورم نصف سے زیادہ ہونا چاہیے یہاں تو معمولی سینیٹروں کی تعداد بھی دستیاب نہیں ہوتی۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات