33 C
Lahore
Thursday, July 3, 2025
ہومغزہ لہو لہوجنت نظیر وادی سوات یا وادی اجل

جنت نظیر وادی سوات یا وادی اجل


قدرتی حسن سے مالا مال جنت نظیر وادی سوات حکمرانوں کی نااہلی کی وجہ سے وادی اجل بن چکی ہے کیونکہ ہر سال آنے والا سیلاب، سیر و تفریح کے لیے آنے والے درجنوں سیاحوں کی زندگیاں نگل کر ریاست کے منہ پر کالک مل کر شہداء کے پسماندگان سمیت پوری قوم کو غم زدہ چھوڑ جاتے ہیں۔

گزشتہ سالوں کی طرح ہفتہ کی صبح بھی سوات کی جنت نظیر خوبصورت وادی میں سیلابی ریلے کی بے رحم موجیں 16 انسانوں کی زندگیوں کو نگل گئیں۔ اس سانحہ نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ مرنے والوں کا تعلق مردان اور ڈسکہ سے تھا۔ ڈسکہ سے تعلق رکھنے والی فیملی کے دس افراد کو سیلابی ریلا اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ بدقسمت فیملی جمعہ کی رات سیر و تفریح کی غرض سے ناران جا رہی تھی لیکن دوران سفر ارادہ تبدیل ہوگیا وہ ناران جانے کے بجائے سوات چلی گئی۔

صبح سویرے سوات پہنچے تو ناشتے کے لیے دریائے سوات کے کنارے ایک ہوٹل پر رکے، جہاں کچھ لوگ تصاویر بنانے کے لیے بچوں کے ساتھ دریا میں اتر گئے اور کچھ ہوٹل میں ہی بیٹھ گئے، اس وقت دریا میں معمول کے مطابق مناسب پانی تھا، سیاح دریا سوات کے حسن بیمثال سے لطف اندوز ہورہے تھے اور یہ دلکش مناظر موبائل فونز میں محفوظ کررہے تھے مگر موت بڑی تیزی کے ساتھ ان کی جانب بڑھ رہی ہے کیونکہ ایک رات قبل وادیٔ سوات اور اوپر کے علاقوں میں تیز بارش ہوئی تھی بارش کا پانی ایک بڑے سیلابی ریلے کی صورت میں سوات میں اس مقام پر اچانک پہنچ گیا جہاں ڈسکہ اور مردان سے آئے ہوئے سیاح دریا کے اندر کھڑے تصاویر بنا رہے تھے۔

اچانک سیلابی پانی نے انھیں گھیر لیا، سیلاب کے تند و تیز پانی نے کسی کو کنارے تک پہنچنے کا موقع ہی نہیں دیا اور سب دریا میں موجود ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر مدد مانگتے اور زندگی کی دہائیاں دیتے رہے۔ جولوگ ہوٹل میں رک گئے تھے وہ کنارے پر چیختے چلاتے مدد کے لیے پکارتے رہے، مقامی لوگ انتظامیہ اور ریسکیو ٹیموں کو کالیں کرتے رہے مگر ڈیڑھ گھنٹے تک کوئی ان کی مدد کو نہ پہنچا۔ ریاستی مشینری نظر آئی، کوئی ریسکیو ٹیم پہنچی اور نہ ہی کوئی ضلعی افسر۔ وہ ڈیڑھ گھنٹے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں رہے۔

اس دوران سوات کا ایک بہادر نوجوان ہلال خان سیلابی ریلے میں پھنسے لوگوں کے لیے امید کی ایک کرن بن کر سامنے آیا۔ ہلال خان سرکاری اہلکار ہے نہ ہی کسی این جی او کا ملازم۔ وہ ایک عام مگر درد دل رکھنے والا غیر معمولی اور بڑا انسان ہے، جو ہر سال بلا معاوضہ صرف اللہ کی رضا کی خاطر دریا میں ڈوبنے والے درجنوں افراد کو موت کے منہ سے نکالتے اور سیلابی ریلوں میں بہہ جانے والے لوگوں کی لاشیں تلاش کر کے ان کے لواحقین کے حوالے کرتا ہے، جب 2022ء کے سیلاب میں سوات مکمل تباہ ہو گیا تھا، ہر طرف قیامت اور نفسا نفسی کا سماں تھا، اس وقت بھی ہلال خان اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر کمزور سی جھونپڑی جیسے تیرنے والے جھولے میں لوگوں کی جانیں بچانے نکلا۔ چاروں طرف نفسانفسی کا عالم تھا مگر ہلال پانی میں پھنسے مصیبت زدہ انسانوں کی طرف امید کی کرن بن کر بڑھ رہا تھا۔

اپنی مدد آپ اور ذاتی خرچ پربنائے گئے ضروری آلات کو لے کر اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کئی جانیں بچائیں۔ مگر ریاستی ردعمل اس وقت بھی شرمناک تھا اور آج بھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی دریا کسی کو نگل لیتا ہے، لوگ پولیس یا انتظامیہ سے پہلے ہلال خان کو یاد کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ہلال خان کام نہیں فرض نبھاتا ہے۔ اس بار بھی سب سے پہلے ہلال خان اپنی تیار کی ہوئی کشتی لے کر تند و تیز سیلابی ریلے میں اترا۔ یہ کام اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا لیکن ہلال خان نے اس لیے جان کی بازی لگا دی کہ “جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے تمام انسانیت کی جان بچائی”۔ ہلال خان بے رحم موجوں پر اپنی کشتی کے ساتھ موجود تھااس کی کشتی ہچکولے کھاتی ہوئی اس ٹیلے تک پہنچ گئی جہاں ڈسکہ کی فیملی کے تیرہ لوگ پھنسے ہوئے تھے۔ جونہی اس نے اپنی کشتی ٹیلے کے قریب کی کچھ لوگوں نے اسے تھامنے کی کوشش کی۔ ان تیرہ لوگوں میں سے صرف تین کی جان بچائی جاسکی باقی ایک ایک کرکے سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ تین جانیں بچانے پر ہلال خان کو ستارہ جرات اور سوات میں ریسکیو ٹیم کا تاحیات انچارج بنانا چاہیے۔

حیرت ہے کہ دو درجن کے لگ بھگ سیاح دریا میں ایک ٹیلے پر کئی گھنٹے ریاستی اداروں کی مدد کے منتظر رہے مگرضلعی انتظامیہ اور ریسکیو 1122 کا عملہ ان کی مدد کو نہیں پہنچ سکا۔ اور کافی وقت گزرنے کے بعد جو لوگ آئے تو ان کے پاس پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے کے لیے کوئی سامان موجود نہیں تھا۔ وہ سامان لانے کا کہہ کر گئے اور سیلاب کا بے رحم پانی 16 انسانوں کی زندگیاں نگلنے تک واپس نہیں آئے۔ موقع پر موجود لوگوں کو بتایا گیا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور کا ہیلی کاپٹر پھنسے ہوئے لوگوں کو ریسکیو کرنے آرہا ہے۔

اب کون انھیں سمجھاتا کہ یہ عمران خان کی فیملی نہیں جسے بچانے کے لیے فوری ہیلی کاپٹر آجاتے، یہ بیچارے عام لوگ ہیں جن کی زندگیاں ان بے رحم حکمرانوں کے نزدیک کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تو پھر انھیں بچانے کے لیے اسلام آباد میں بانی پی ٹی آئی سے ملنے کا رونا رونے والے وزیراعلیٰ اپنا ہیلی کاپٹر کیوں بھیجتے؟ ان سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ” آپ کے صوبے میں لوگ سیلابی ریلے میں بہہ رہے ہیں ان کے لیے آپ نے کیا اقدامات کیے ہیں تو گنڈاپور نے جواب دیا کہ وہاں انتظامیہ موجود ہے میں نے جا کر انھیں تمبو تھوڑا دینے ہیں”۔ ایسے بے حس حکمرانوں سے کیا توقع کی جا سکتی ہے۔

اگر سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے ان بدقسمتوں کو بروقت مدد پہنچ جاتی تو ان کی جانیں بچ سکتی تھیں اس کا مطلب ہے سیلاب نہیں حکمرانوں کی بے حسی، غفلت اور بد انتظامی ان 16 زندگیوں کو نگل گئی۔ کیوں کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA) کی وارننگ کے باوجود ضلعی حکومت نے کوئی حفاظتی اقدامات کیے اور نہ ہی سیاحوں کو بروقت خبردار کیا گیا۔ کیا سیاحت کے فروغ کا مطلب یہ ہے کہ سیاح کو غیر محفوظ راستوں پر بغیر کسی حکومتی رہنمائی کے چھوڑ دیا جائے؟ یہ خیبرپختونخوا میں اس نوعیت کا پہلا حادثہ نہیں، ایسے حادثات ہر سال درجنوں سیاحوں اور مقامی لوگوں کی جانیں نگلتے ہیں۔

 2022ء میں سیلاب نے وادی سوات میں تباہی مچا کر رکھ دی تھی، اسی دوران سیلاب میں ہونے والے حادثات کی ویڈیوز اور تصاویر آج بھی عوام کے دلوں کو دہلا رہی ہیں۔ جب 25 اگست کو خیبرپختونخوا میں سیلاب میں مدد کے منتظر افراد کے ڈوبنے سے لوگ آبدیدہ ہوگئے اور سوشل میڈیا صارفین نے کے پی حکومت کوآڑے ہاتھوں لیا۔

سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک مختصر ویڈیو میں خیبرپختونخوا کے علاقے کوہستان میں تیز سیلاب میں پانچ افراد کو ایک پتھر پر مدد کے لیے منتظر دیکھا جا سکتا ہے۔ سوال یہ ہے پچھلے بارہ سال سے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اس نے صوبے میں تباہی و بربادی اور کرپشن کی نت نئی کہانیاں چھوڑنے کے علاوہ کیا کیا؟ پورے صوبے میں ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے ریسکیو کا نظام تک موجود نہیں اور وزیراعلیٰ ہاؤس کی شاہ خرچیوں کے چرچے ہیں۔ اتنی بڑی غفلت پر دو چار افسروں کو معطل کرنے کے بجائے وزیر اعلیٰ پختونخوا سمیت پورے حکومتی ذمے داران کو مستعفی ہو کر گھر چلے جانا چاہیے کیونکہ نااہل لوگوں کو حکمرانی کا کوئی حق نہیں۔

 پانی زندگی ہے اور ہمارے نبی رحمت العالمین حضرت محمد مجتبیٰ ﷺ نے وضو کے دوران بھی پانی کے ضیاع اور اصراف سے منع کیا ہے۔ آج پوری دنیا میں انسانیت کو پانی کی قلت کا سامنا ہے اور ہر ملک، ریاست اور قوم پانی کا ایک ایک قطرہ محفوظ کرنے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہے ہیں، گھر گھر میں “واٹر ریزرویشن بورز” جیسے طریقوں سے بارش کے پانی کو واپس زمین کے سینے میں اتار کر زمین میں پانی کی سطح کو بلند کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں ہر سال کروڑوں نہیں اربوں لیٹر بارش کا پانی نہ صرف ضایع ہو کر سمندر برد ہورہا ہے بلکہ سیکڑوں انسانوں، ہزاروں مال مویشیوں کو نگل کر اربوں روپے کی فصلوں اور پراپرٹیز کو بہا کر لے جاتا ہے زندگی کی علامت “پانی” موت بانٹتے بانٹتے سمندر میں غرق ہوجاتا ہے۔

حکومت وقت اگر پانی کا ضیایع نہیں روک سکتی تو کم از کم انسانی زندگیوں کو محفوظ بنانے کو تو یقینی بنائے اور اگر نہیں تو پھر ہر اس طرح کے موت کی ایف آئی آر ان نااہل حکمرانوں کے خلاف درج ہونا چاہیے۔ آخر میں متاثرہ خاندانوں سے دلی ہمدردی کا اظہار کرتاہوں۔ اور بحیثیت قوم ہمیں یہ عزم بھی کرنا ہوگا کہ اس طرح کے حادثات پر صرف افسوس نہ کریں بلکہ اس نظام کو جھنجھوڑ کر جگائیں یا جڑ سے اکھاڑ پھینکیں، جو وقت پر شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرکے ریت میں سر دبا لیتا ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات