سوات میں حالیہ سیلابی ریلے کے دوران پیش آنے والے دل خراش واقعے نے ریسکیو کی نامناسب سہولیات کو بے نقاب کر دیا۔
جیو نیوز کے پروگرام جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے ریسکیو 1122 خیبر پختونخوا کے ترجمان بلال فیضی کا کہنا ہے کہ سیلابی ریلے میں ریسکیو کے لیے دو طرح کی کشتیاں استعمال ہوتی ہیں، جو اس صورتِ حال میں مؤثر نہیں تھیں۔
ریسکیو آپریشن کے لیے مقامی طور پر بنائی گئی کشتی استعمال کی گئی، غوطہ خوروں نے پہلی کوشش میں تین افراد کو ریسکیو کیا، لیکن پانی کے تیز بہاؤ کے باعث دوسری کوشش ناکام ہوگئی۔
بلال فیضی نے کہا کہ ریسکیو اداروں کو اطلاع دی گئی کہ کچھ بچے ہوٹل میں پھنسے ہیں، جس پر ایمبولینس روانہ کی گئی، موقع پر پہنچنے پر پتا چلا کہ بچے ہوٹل میں نہیں سیلابی ریلے میں پھنسے ہوئے تھے۔
دوسری جانب دریائے سوات میں سیاحوں کے ڈوبنے کے واقعے پر پشاور ہائی کورٹ نے کمشنر ملاکنڈ اور دیگر متعلقہ افسران کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا غفلت کے باعث 17 جانیں گئیں، سیاحوں کو بروقت ریسکیو کیوں نہیں کیا گیا ؟
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا ایئرایمبولنس موجود تھی مگر وقت کم ہونے کے باعث استعمال نہ ہوسکی، عدالت نے کہا حکومت کی جانب سے جاری وارننگ پر متعلقہ حکام نے عمل درآمد کیوں نہیں کیا؟
خیال رہے کہ 27 جون کو دریائے سوات کا سیلابی ریلہ 17 سیاحوں کو بہا لے گیا تھا، جس سے 11 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
عینی شاہدین کے مطابق صبح ناشتے کے بعد سیاحوں نے تصویریں لینے کے لیے دریا کے خشک حصے کا رخ کیا تھا کہ اچانک بے رحم موجوں نے انہیں گھیر لیا، لوگ جان بچانے کے لیے ٹیلے پر چڑھ گئے، مدد کے لیے پکارتے رہے، لیکن دریا کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ کوئی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکا۔