انشورنس انڈسٹری ملکی معیشت میں ایک اہم سٹیک ہولڈر ہے۔ پاکستان میں اس کی کیا صورتحال ہے اور اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس حوالے سے جائزہ لینے کیلئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سید ممتاز علی شاہ
(وفاقی انشورنس محتسب)
انشورنس ملکی معیشت کو سنبھالنے والا اہم شعبہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے، وہاں کوئی کام انشورنس کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ ان ممالک کی جی ڈی پی میں انشورنس کا بڑا حصہ ہوتا ہے مگر ہمارے جی ڈی پی میں انشورنس کا شیئر صرف ایک فیصد ہے، اسے بڑھانے کیلئے آگاہی اور لوگوں کا اعتماد ناگزیر ہے۔
وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ اس میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، ہم متاثرین کو آسان، مفت اور فوری ریلیف فراہم کر رہے ہیں، گزشتہ ایک برس میں موصول ہونے والی 95 فیصد شکایات کو نمٹا دیا گیا ہے۔ہمارے ہمسایہ ممالک میں انشورنس کی جی ڈی پی میں شرح 4 سے 5 فیصد ہے لہٰذا ملک میں فنانشل لٹریسی کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو علم ہو کہ کس طرح انشورنس ان کی اور ان کے خاندان کی زندگی میں بہتری لاسکتی ہے۔
اس حوالے سے سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کام کر رہا ہے، تعلیمی نصاب میں بھی آگاہی مضامین شامل کرنے کی تجویز زیر غور ہے۔ اسلامی بنکاری کی طرح انشورنس میں بھی اسلامی پراڈکٹس آگئی ہیں،جو افراد انشورنس سے جو مطمئن نہیں وہ تکافل (اسلامی) سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ انشورنس انڈسٹری ایک بہت بڑا سیکٹر ہے، انشورنس کی شرح میں جتنا اضافہ ہوگا،ملکی معیشت اتنی ہی مضبوط ہوگی۔ ماضی میں جب نیشنلائزیشن ہوئی تو انشورنس انڈسٹری بھی نیشنلائز ہوگئی۔ 90کی دہائی میں دوبارہ پرائیویٹ کیا گیا۔ اب5کمپنیاں سرکاری جبکہ باقی پرائیویٹ ہیں۔ اس وقت تقریباََ 42 کمپنیاں انشورنس اور تکافل میں کام کر رہی ہیں۔ پہلے منسٹری آف کامرس انشورنس انڈسٹری کو ریگولیٹ کرتی تھی ۔ سنہ 2000ء میں انشورنس آرڈیننس آیا جس کے تحت اب انشورنس انڈسٹری کا ریگولیٹر سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان ہے۔
اسی آرڈیننس میں وفاقی انشورنس محتسب کا ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا۔ 2006ء میں پہلی مرتبہ وفاقی انشورنس محتسب کی تعیناتی ہوئی۔ محتسب کی مدت ملازمت چار سال ہوتی ہے۔ وفاقی انشورنس محتسب کا ادارہ 60 روز میں انشورنس سے متعلق شکایت کا ازالہ کرتا ہے۔ہمیں شکایت موصول ہوتی ہے تو صارف کو کہا جاتا ہے کہ متعلقہ کمپنی کو 30 دن میں ازالے کا نوٹس دیں۔ اگر ایک ماہ میں ہی کمپنی خود مسئلہ حل کر دیتی ہے۔
اگر مسئلہ حل نہیں ہوتا تو دونوں فریقین کو سن کر قانون کے مطابق فیصلہ دیا جاتا ہے۔ ہم انشورنش کمپنی اور شکایت کنندہ کے درمیان تصفیہ کراتے ہیں۔ اگر معاملات آپس میں طے نہ ہوں تو کارروائی کی جاتی ہے ۔ کمپنیاں فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست بھی وفاقی محتسب کو دے سکتی ہیں۔ہمارا ہیڈ کوارٹر کراچی میں ہے اور ملک بھر میں ہمارے7 ریجنل دفاتر ہیں، سند ھ اور پنجاب میں دو دو جبکہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور اسلام آباد میں ایک ایک دفتر قائم ہے۔
متاثرین سادہ کاغذ پر ہمارے دفاتر جاکر یا آن لائن بھی شکایت درج کراسکتے ہیں۔ ہمارے تمام دفاتر آن لائن سسٹم سے منسلک ہیں اور آن لائن ہی صارف اور کمپنی کے درمیان تصفیہ کروا دیا جاتا ہے۔ ریجنل دفاتر اپنے اپنے علاقوں کے کیسز کی انوسٹی گیشن کرکے وفاقی محتسب کو بھجواتے ہیں، فیصلہ وفاقی محتسب ہی کرتا ہے۔ وفاقی انشورنس محتسب کے فیصلے کو صدر پاکستان کے پاس چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ وہاں ایک باقاعدہ جج فریق کو سنتے اور فیصلہ دیتے ہیں۔ انشورنس کمپنیز کے پاس اب ایک ایسا فورم موجود ہے جس پر وہ صارفین کے ساتھ مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
اس سے لوگوں میں انشورنس پر اعتماد بحال ہو رہاہے۔ ہمارے پاس بنک اشورنس کے حوالے سے بھی شکایات آتی ہیں۔ صارف سمجھتا ہے کہ یہ انوسٹمنٹ پالیسی ہے لیکن وہ انشورنس پالیسی ہوتی ہے اور ایجنٹ اسے ٹھیک طرح سے بریف نہیں کرتا۔ اس پر سٹیٹ بنک نے بھی آرڈر دیا ہے کہ تفصیلات سے آگاہ کیا جائے، نوٹس بورڈ پر آویزاں کیا جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ محتسب کے پاس شکایت کی جاسکتی ہے۔
کمپنیز اچھا کام کر رہی ہیں لیکن اکثر ایجنٹ اپنی کمیشن اور ٹارگٹ پورا کرنے کیلئے صارف کو درست گائیڈ نہیں کرتے۔ انشورنس کو انوسٹمنٹ بتا کر سیل نہ کیا جائے۔ 2024ء میں ہمیں ملک بھر سے 6 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 98 فیصد یعنی 5800 سے زائد کیسز کا فیصلہ کر دیا گیا ہے۔ اس میں زیادہ تر کیسز فریقین کی باہم رضامندی سے حل ہوگئے۔ کچھ میں نظر ثانی کی درخواست کی گئی، ہم نے ان کا بھی فیصلہ کیا۔ 1 فیصد کے قریب کیسز میں صدر پاکستان کو اپیل کی گئی۔ ہم عوام کو فوری اور مفت انصاف فراہم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔
آن لائن شکایت درج کرائیں ، یہ سادہ اور آسان ہے، موبائل پر شکایت درج کرائی جاسکتی ہے۔ ہم اس نظام کو مزید بہتر بنا رہے ہیں کہ شکایت کنندہ اپنی شکایت کے مراحل ٹریک کر سکے اور اسے آن لائن آرڈر بھی مل جائے جو ڈاؤن لوڈ ہوسکے۔ ہم ویڈیو کال پر ہیرنگ کرتے ہیں، شکایت کنندہ کسی بھی شہر میں رہ کر تفتیش میں شامل ہو سکتا ہے۔ ہم ٹیکنالوجی کا بھرپور فائدہ اٹھا کر لوگوں کو ریلیف دے رہے ہیں۔ میرے نزدیک اس وقت سب سے زیادہ ضرورت آگاہی کی ہے۔ ہمیں ہر فورم سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے کہ وہ وفاقی محتسب کے ادارے سے مفت اور فوری انصاف حاصل کرسکتے ہیں۔
اورنگزیب جاوید صدیقی
(ہیڈ آف فنانشل انسٹی ٹیوشنز اینڈ ریٹیل سیلز ٹی پی ایل انشورنس)
پاکستان کی آبادی 25کروڑ ہے جس میں نصف سے زائد آبادی کی عمر 21 برس سے کم ہے۔ ہمارے ہاں انشورنس کے حوالے سے ایک بڑا مسئلہ آگاہی کا نہ ہونا ہے، یہی وجہ ہے کہ انشورنس ملکی جی ڈی پی کا صرف ایک فیصد ہے۔ تصور کریں کہ آپ گاڑی میں دفتر جا رہے ہیں اور خدانخواستہ حادثے میں گاڑی اور آپ کا نقصان ہوجائے پھر گاڑی اور ہسپتال کے اخراجات اور خدانخواستہ ایکسیڈنٹ شدید ہو تو جان بھی جا سکتی ہے۔
ایسے حالات میں جب بھاری مالی یا جانی نقصان ہو اور انشورنس بھی نہ ہو تو اس سے آپ کی اور خاندان کی زندگی متاثر ہوگی۔ اگر انشورنس ہو تو مشکل حالات میں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ انشورنس انڈسٹری آگاہی پر کام کر رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ انشورنس اور تکافل کی آگاہی کے حوالے سے اتنا کام نہیں ہوا جتنا ہونا چاہیے تھا۔
لوگوں کو بڑے پیمانے پر ایجوکیٹ نہیں کیا جاسکا کہ انشورنس اور تکافل کے فائدے کیا ہیں، کہاں سے پالیسی لی جاسکتی ہے،ا س میں کیا کچھ شامل ہوتا ہے، کس طرح سے جان اور مال کا تحفظ کیا جاسکتا ہے۔ اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے، سب کے پاس سمارٹ فونز ہیں اور ہر وقت اپ ڈیٹ رہتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں سینکڑوں انشورنس کمپنیاں ہیں لیکن کوئی بھی کمپنی براہ راست آگاہی پر توجہ نہیں دیتی، ہمیں انشورنس کے نظام میں جدت لاناہوگی۔ ٹی پی ایل انشورنس اس پر کام کر رہا ہے۔ ہم نے انشورنس میں لائف سٹائل پراڈکٹس متعارف کرائی ہیں۔ زیارت، عمرہ، حج اور دیگر سفر کیلئے تکافل، موٹر ویز پر سفر کے دوران 4گھنٹے کی ٹریول انشورنس بھی کرائی جاسکتی ہے۔
اس کے علاوہ موبائل انشورنس، پالتو جانور کی انشورنس، موٹر سائیکل انشورنس، زرعی انشورنس، ہیلتھ انشورنس سمیت دیگر سہولیات موجود ہیں۔ اگر کہیں موبائل چھینا گیا ہے، ڈکیتی ہوگئی ہے تو اس میں انشورنس پالیسی کا فائدہ ہوگا۔ انشورنس کمپنیاں بنکوں کے ساتھ کام کرتی ہیں کیونکہ بنک کا دائرہ کار بڑا ہے۔ اگر کسی بنک کی 1700 برانچز ہیں تو وہ ملک بھر میں اپنا کام کر رہا ہے اور کراچی سے خیبر تک، لوگ اس پر اعتماد رکھتے ہیں۔
ان کے صارفین کی تعداد زیادہ ہے اور روزانہ کی بنیاد پر ان کا بنک سے لین دین کا معاملہ رہتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انشورنس کمپنیاں، لائف اور نان لائف، دونوں کیلئے بنکوں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ ہمارے اپنے براہ راست صارفین 35 سے 40 فیصد ہیں، باقی کارپوریٹ سیکٹر اور بنکوں کے ذریعے آتے ہیں۔
بنک میں دو طرح کی انشورنس ہوتی ہے، ایک بیڈڈ انشورنس ہوتی ہے اور دوسری بنک اشورنس۔ بنک اشورنس میں بنک ، انشورنس کمپنی کی انشورنس اپنے صارفین کو بیچتا ہے اور پھر بنک کی اپنی انشورنس ہوتی ہے جیسے بنک سے گاڑی خریدیں تو اس کی انشورنس ہوتی ہے۔ انشورنس ریگولیٹر کی وجہ سے انشورنس انڈسٹری کو فائدہ ہو رہا ہے۔ وفاقی محتسب کی وجہ سے شفافیت آرہی ہے، دوسرا یہ کہ اگر صارف کو انشورنس یا تکافل کلیم میں کوئی مسئلہ ہے تو وفاقی محتسب کا ادارہ اسے انصاف فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے انڈسٹری میں تبدیلی آئی ہے۔ ہم ڈجیٹائزیشن پر توجہ دے رہے ہیں تاکہ صارفین کو فوری اور سہل سہولیات آن لائن فراہم کی جاسکیں۔ پہلے کسی نے انشورنس کرانی ہوتی تھی تو کسی جاننے والے سے رابطہ کیا جاتا تھا، اب مڈل مین کا کام ختم ہو رہا ہے۔
جدت میں پاکستان کا انڈونیشیا و دیگر ممالک سے موازنہ کیا جاسکتا ہے، یہاں ڈیجیٹائزیشن ہوگئی ہے۔ اب کسٹمر کی انشورنس کمپنیز اور تکافل آپریٹرز سے براہ راست بات ہوتی ہے ، وہ ڈائریکٹ پالیسی خریدتے ہیں اور اگر کوئی مسئلہ ہو تو ریگولیٹر اس میں مدد کرتا ہے۔ سکیورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے سینڈ باکس بنایا، اس میں انشورنس کمپنیز نئے آئیڈیاز لے کر آئی۔ ٹی پی ایل بھی اس کا حصہ بنا۔ پاکستان میں دس برس قبل زرعی انشورنس کا تصور ہی نہیں تھا۔ موسمیاتی تبدیلی سے پوری دنیا متاثر ہورہی ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے اور یہاں بڑی تعداد میں لوگوں کا انحصار زراعت پر ہے۔
سیلاب کی وجہ سے فصلیں متاثر ہوتی ہیں۔ کسان قرض لے کر فصل اگاتے ہیں، اگر سیلاب آجائے اور فصل تباہ ہوجائے تو انہیں بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ان کا کوئی تحفظ نہیں ہے۔ اس میں ریگولیٹرنے کردار ادا کیا کہ اگر زرعی کاروبار کی فنانسنگ ہو رہی ہے تو اس میں انشورنس کو لازم کیا جائے۔ مویشیوں کی انشورنس ہے اور کسی آفت میں ان کی جان جاتی ہے تو کسانوں کو انشورنس کلیم ادا کیا جائے۔
ڈیجیٹائزیشن کی وجہ سے اب انشورنس پالیسی لینا بہت آسان ہوگیا ہے۔ مثال کے طور پر میں کراچی سے لاہور فلائٹ لے کر آیا ہوں۔میں چند منٹ میں ٹی پی ایل کی موبائل ایپ کے ذریعے با آسانی انشورنس پالیسی لے سکتا ہوں ۔ میں اگلے دو تین دن لاہور میں ہوں، سفر کر رہا ہوں، موٹر وے پر ہوں، خدا نخواستہ کوئی حادثہ ہو جاتا ہے یا سامان گم ہو جاتا ہے یا کوئی اور مسئلہ ہوتا ہے تو مجھے انشورنس کی مد میں کچھ رقم مل جائے گی۔ یہ صرف ایک مثال ہے، اس طرح کی بہت ساری پراڈکٹس ہیں جن میں مختلف معاملات کے حوالے سے انشورنس ہوتی ہے۔ تعلیم ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، اس سے شعور ملتا ہے۔ ہم آگاہی کی بات کرتے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جنہیں آگاہی دینے کی کوشش کی جارہی ہے کیا ان میں شعور ہے۔ انشورنس کی ضرورت اس وقت محسوس ہوتی ہے جب نقصان ہو،ا س سے پہلے ہم آسان رہتے ہیں۔
ہماری سوچ ردعمل کی ہے، ہم پیشگی اقدامات نہیں کرتے۔ گاڑیاں، موبائل فونز مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے لوگ تین سال میں گاڑی تبدیل کرتے تھے اب پانچ برس میں کرتے ہیں۔ اس میں انشورنس، تکافل اہم ہے۔ لوگوں کو یہ آگاہی بھی نہیں ہے کہ اگر آپ بذریعہ موٹر وے لاہور سے اسلام آباد سفر کر رہے ہیں، آپ ٹول پلازہ کراس کرتے ہی موبائل ایپ کے ذریعے چار گھنٹے کی انشورنس بھی لے سکتے ہیں۔ اس کی آگاہی دینے کیلئے انشورنس کمپنیوں کو بہت محنت کرنا پڑے گی۔ اگر ہم ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیز ، کمرشل و مائیکروفنانس بنکس کے ساتھ جاتے ہیں تو ان کا ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک بڑا ہے، بہت فائدہ ہوسکتا ہے۔ ہمارے ملک میں انشورنس اور تکافل میں بہت پوٹینشل موجود ہے۔
ابھی ہم جی ڈی پی کے ایک فیصد پر ہیں، اگر اسے تین فیصد تک بھی لے جائیں تو بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ انشورنس انڈسٹری میں انوویشن کی ضرورت ہے۔ٹی پی ایل انشورنس اس پر کام کر رہی ہے۔ گزشتہ دو برس میں ہم نے پالتو جانور کی انشورنس متعارف کرائی ہے۔ ہم موبائل فون کی انشورنس کرتے ہیں۔ پاکستان میں بہت کم انشورنس کمپنیاں ہیں جو موٹر سائیکل کی انشورنس کرتی ہیں، ٹی پی ایل ان میں سے ایک ہے۔ ہم نے شاید تشہیر زیادہ نہیں کی لیکن ہماری پراڈکٹس عام آدمی کو سہولیات دے رہی ہیں۔ وقت تیزی سے بدل رہا ہے۔ 40 برس کی تبدیلی ایک طرف، گزشتہ 5 برسوں میں دنیا میں جو تبدیلیاں آئی ہیں اس نے انڈسٹری کو بدل دیا ہے۔
اب آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا دور ہے۔ ہر طرح کی انفارمیشن اس سے مل جاتی ہے۔ ہمیں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال سے انوویشن لانی ہے۔ انڈسٹری میں مغربی ممالک کی طرح ریسرچ کلچر کو فروغ دینا ہوگا۔ ہر انشورنس کمپنی کو جدت لانا ہوگی۔ انشورنس ایک اعتماد اور وعدہ ہے کہ آپ پالیسی لیں، مشکل میں ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ہمارے ہاں سب جلدی میں ہیں، لوگ سگنل پر بھی نہیں رکتے۔ اسی رویے کی وجہ سے لوگوں کو کلیم کے وقت انشورنس کمپنیوں سے زیادہ شکایات سپیڈ کی ہوتی ہیں۔ اس مسئلے کو دور کرنے کیلئے آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور ڈیجیٹائزیشن کی ضرورت ہے ۔
ہماری کمپنی میں شکایت کی صورت میں فوری ازالہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارا واٹس ایپ اور ہیلپ لائن چوبیس گھنٹے صارفین کی رہنمائی کیلئے موجود ہیں۔ شکایت کنندہ کو لمحہ بہ لمحہ سٹیٹس اپ ڈیٹس دی جاتی ہیں، ہم لوگوں کا انشورنس پر اعتماد قائم کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔
بسااوقات تاخیر کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور اسے ورکشاپ بھجوا دیا گیا۔اس کے سپیئر پارٹس دستیاب نہیں یا پھر نقصان کا تخمینہ لگانے میں تاخیر ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں اکثر صارفین انشورنس کمپنی کو موردالزام ٹہراتے ہیں۔ اس شکایت کو دور کرنے کیلئے ہم نے ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے حصے کے کام کو تیز کیا ہے۔ اگر پہلے 36 گھنٹے لگتے تھے تو اب اسے 4 سے 6 گھنٹے میں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہم کسٹمر سروس کو بہت کرنے کیلئے بڑے اقدامات کر رہے ہیں، امید ہے لوگوں کا انشورنس پر اعتماد بحال ہوگا۔