36 C
Lahore
Saturday, June 28, 2025
ہومغزہ لہو لہوحقیقت پسندانہ رپورٹ - ایکسپریس اردو

حقیقت پسندانہ رپورٹ – ایکسپریس اردو


وفاقی حکومت غیر سرکاری شعبے کے ملازمین کی کم ازکم اجرت میں اضافہ نہ کرسکی۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بجٹ تقریر میں اعلان کیا کہ آجر حکومت کا فیصلہ ماننے کو تیار نہیں ہیں، یوں حکومت غریب ملازمین کی کم ازکم اجرت میں اضافہ نہیں کرسکتی۔ اب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اپنے ایک اجلاس میں وفاقی حکومت پر زور دیا ہے کہ ملک بھر میں کم ازکم اجرت 50 ہزار روپے مقررکی جائے۔

وزارت خزانہ سے منسلک سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے آیندہ مالیاتی سال کے بجٹ کے لیے اپنی سفارشات مکمل کر لیں۔ ان سفارشات میں کہا گیا ہے کہ ای او بی آئی کی پنشن 23 ہزار روپے ماہانہ مقررکی جائے۔ اسی طرح ایک اور سفارش میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین کی ماہانہ پنشن 7 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کی جائے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ کیا جائے۔ ایک اور سفارش میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زرعی آمدنی پر 10 فیصد انکم ٹیکس لگایا جائے اور تنخواہ دار طبقے کے لیے سالانہ 12 لاکھ روپے تک انکم ٹیکس کی چھوٹ دی جائے۔

یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ 200 یونٹ تک ماہانہ بجلی استعمال کرنے پر ڈیٹ سروس سرچارج نہ لگایا جائے۔ قائمہ کمیٹی نے ایک اور اہم سفارش کی ہے کہ تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کیا جائے۔ سرکاری ملازمین کی پنشن قوانین کے تحت شریکِ حیات کے انتقال کے بعد بیوہ اور یتیم بچی کو جو تاحیات آدھی پنشن ملتی تھی، اس کی مدت 10 سال کردی گئی ہے۔ سینیٹ کی اس کمیٹی سے درخواست کی گئی تھی کہ پنشن کے قوانین میں یہ ترمیم غیر انسانی ہے۔

اس ترمیم کی بناء پر ہزاروں بیوائیں اور یتیم بچیاں اس آمدنی سے محروم ہوجائیں گی۔ سینیٹ میں پنشن کمیٹی کے کچھ اراکین کا خیال تھا کہ پنشن کے قوانین میں شامل ہونے والی یہ شق ختم کر دی جائے گی مگر کمیٹی کی ان سفارشات کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمیٹی نے اس معاملہ کا گہرائی سے جائزہ نہیں لیا جوکہ مایوس کن ہے، مگر مجموعی طور پر سینیٹ کی کمیٹی نے جامع سفارشات تیارکی ہیں مگر حکومت نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا ہوا ہے، اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وزارت خزانہ بیشتر سفارشات کو قبول نہیں کرے گی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے عظیم اتفاق رائے کے نتیجے میں یہ بجٹ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوجائے گا مگرکمیٹی کی یہ سفارشات ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت اختیار کریں گی۔

وفاق کے زیر انتظام اسلام آباد میں کم از کم اجرت 37 ہزار روپے اور سندھ میں بھی کم از کم اجرت 42 ہزار روپے ہے جب کہ پنجاب میں کم از کم اجرت 40 ہزار روپے اور خیبر پختون خوا میں کم از کم اجرت 36 ہزار روپے مقرر ہے۔ بلوچستان میں یہ اجرت 37 ہزار روپے مقرر ہے۔ اس کے باوجود ملک میں اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اسلام آباد اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی عملی طور پر یہی صورتحال ہے۔ حکومت کے پاس کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کے لیے ایک پورا نظام موجود ہے۔ ہر شہر کی انتظامیہ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کرائے۔

ڈویژن کا کمشنر اور ضلع کا ڈپٹی کمشنر براہِ راست اس کا ذمے دار ہے۔ ہر صوبہ میں محکمہ محنت موجود ہے۔ محکمہ محنت کی بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ دکان سے لے کر بڑے کارخانے تک میں کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کرائے۔ محکمہ محنت کے انسپکٹر ہر بازار سے لے کر تمام صنعتی اداروں میں فیکٹریوں کا معائنہ کرنے کے پابند ہیں، یہ انسپکٹر لیبر سے متعلق تمام قوانین پر عملدرآمد کے پابند ہوتے ہیں ۔ لیبر قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے یہ انسپکٹر لیبر قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے جرمانہ عائد کرسکتے ہیں۔

لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر محکمہ محنت کئی سخت اقدامات بھی کرسکتا ہے مگر حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت کے اعلانات کے باوجود اب لیبر ڈپارٹمنٹ بھی ’’چمک‘‘ کی بناء پر اپنے اصل مقاصد سے ہٹ گیا ہے۔ سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے انکشاف ہوا ہے کہ صوبہ سندھ کی 80 فیصد صنعتیں یا ادارے کم از کم اجرت کے قانون پر عملدرآمد نہیں کرتے۔ کمیٹی کے اجلاس میں اس امر پر مایوسی کا اظہارکیا گیا کہ محکمہ محنت کم ازکم اجرت کے قانون پر عملدرآمد کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔ نثار کھوڑو کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں سندھ سوشل سیکیورٹی انسٹی ٹیوشن (SESSI) کو ہدایت کی گئی کہ کم از کم اجرت کے قانون پر عمل درآمد کیا جائے۔ سندھ اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پیش کی گئی اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کا محکمہ محنت اور اس کے ذیلی ادارے لیبر قوانین پر عملدرآمد میں ناکام رہے ہیں۔

یہی صورتحال پنجاب اور خیبر پختون خوا صوبوں کی ہے۔ ان صوبوں میں بھی غریب مزدوروں کی کم از کم تنخواہ کے قانون پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ چاروں صوبوں اور اسلام آباد میں جن اداروں نے پرائیوٹ سیکیورٹی گارڈ کی خدمات حاصل کی ہیں ان کمپنیوں کے گارڈز کو بہت کم اجرت دی جاتی ہے۔ اسی طرح وفاق کی وزارتوں اور خود مختار اداروں میں ہزاروں افراد ڈیلی ویجز پرکام کررہے ہیں۔ بعض اداروں میں تو چپڑاسیوں کے علاوہ کلرکوں تک کو بھی ڈیلی ویجز پر ملازمتیں دی جا رہی ہیں۔ یہ غریب افراد افسرانِ بالا کی مہربانی سے روزانہ ملازمت پر آتے ہیں، اگر افسر ناراض ہوجائے تو پھر بغیر کسی نوٹس کے ملازمت ختم کر دی جاتی ہے۔ اس طرح شدید مہنگائی کے اس دور میں اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن کے تحت نجی شعبہ کے ملازمین کی ماہانہ پنشن 10 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔

یہ 10 ہزار روپے اتنے کم ہیں کہ ایک ریٹائرڈ شخص یا غریب زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ ای او بی آئی کا دائرہ کار بہت محدود ہے۔ ای او بی آئی کا دائرہ کار بہت زیادہ پھیلا ہوا ہونا چاہیے۔ محض تنخواہ لینے والے ملازمین ہی نہیں بلکہ روزانہ اجرت حاصل کرنے والے افراد کو بھی اس کے دائرے میں شامل ہونا چاہیے، ای او بی آئی کے نظام میں کئی خامیاں پیدا ہوگئی ہیں۔ خاص طور پر پرائیوٹ اسکولوں میں کام کرنے والی خواتین اساتذہ جب ریٹائرمنٹ کے قریب اپنی پنشن لینے جاتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے آجر نے ریکارڈ جمع نہیں کرایا یا اس آجر نے اپنے حصے کی رقم جمع نہیں کرائی۔

اصولی طور پر تو ای او بی آئی کے متعلقہ افسر کو اس ادارے پر جس نے اپنے ملازم کا ریکارڈ یا رقم جمع نہیں کرائی جرمانہ عائد کرنا چاہیے لیکن بجائے اس ادارے پر جرمانہ عائد کرنے کے ان خواتین اساتذہ کو مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے سابقہ ادارے سے ریکارڈ لے کر آئیں ۔ وفاقی محتسب کے دفتر میں ای او بی آئی کے خلاف اس نوعیت کی درجنوں عرض داشتیں فیصلوں کی منتظر ہیں۔ حکومت کو ایسا طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے کہ ای او بی آئی کے قانون کے مطابق ہر آجر کو اپنے تمام ملازمین کی تفصیلات ای او بی آئی کو فراہم کرنی چاہئیں اور اس کے ساتھ ای او بی آئی کی کنٹری بیوشن ہر سال جمع کروانی چاہیے۔ جو آجر اس قانون پر عمل نہ کرے، اس کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔

سینیٹ کی کمیٹی نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں اضافے کی جو سفارشات کی ہیں وہ موجودہ معاشی بدحالی کے دور میں انتہائی اہم ہیں۔ حکومت کو ہر صورت سینیٹ کی اس کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرنا چاہیے۔ سینیٹ کی خزانہ کی قائمہ کمیٹی نے کسی حد تک اپنا فرض پورا کیا ہے، یہ اراکین قابلِ ستائش ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات