36 C
Lahore
Saturday, June 28, 2025
ہومغزہ لہو لہوہر ملک اپنی گلی میں شیر ہے

ہر ملک اپنی گلی میں شیر ہے


آسٹریلوی تھنک ٹینک ’’ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس ‘‘ کی سالانہ امن انڈیکس کے مطابق اس وقت دنیا کی اٹھہتر ریاستوں نے کسی نہ کسی تنازعے میں براہِ راست یا بلاواسطہ سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد کسی بھی ایک سال میں متنازعہ ممالک کی یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔

 گویا بین الاقوامی نظام ٹوٹ رہا ہے۔ پرانے اتحاد تتر بتر ہو رہے ہیں اور نئے اتحاد زیادہ تر زیرِ تعمیر ہیں۔سیاسی ، اقتصادی و سماجی عدم تحفظ کی اس عمومی فضا میں اکثر ملک دفاع کی مد میں پہلے سے زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔

گزشتہ عشرے میں عالمی فوجی اخراجات میں مجموعی طور پر سینتیس فیصد اضافہ ہوا۔صرف گزشتہ برس ان اخراجات میں ساڑھے نو فیصد اضافہ ہوا اور مجموعی خرچہ دو اعشاریہ سات ٹریلین ڈالر تک پہنچ گیا۔

چنانچہ اس ہڑبونگ میں بیشتر ریاستوں میں گورنننس کا نظام بھی تنگ نظر اور سخت گیر ہوتا جا رہا ہے اور سیاست و سفارتکاری پر انتہاپسندانہ سوچ غالب ہو رہی ہے۔دنیا آج کم از کم اتنی ہی غیر محفوظ ہے جتنی سرد جنگ کے عروج پر تھی۔

مزید پیچیدگی یوں بڑھ رہی ہے کہ روائیتی طاقت ور ممالک کے علاوہ متوسط درجے کے ممالک بھی عالمی جنگجو کلب کا حصہ بن رہے ہیں۔

انیس سو ستر کے عشرے تک جتنے بھی تنازعات تھے ان میں سے نصف کسی ایک فریق کی واضح فتح یا ناکامی کے نتیجے میں ختم ہوئے۔آج کے تنازعات میں کسی ایک فریق کی فیصلہ کن کامیابی یا شکست کا تناسب محض نو فیصد رہ گیا ہے۔یعنی چنگاری وقتی طور پر دب جاتی ہے اور پھر اچانک بھڑک اٹھتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اس وقت پانچ ایسے تنازعات ہیں جو عالمی امن بھسم کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔یوکرین روس لڑائی ، اسرائیل فلسطین تنازعہ ، اسرائیل امریکا اور ایران کا تکونی مناقشہ ، پاک بھارت رسہ کشی اور امریکا و چین کی عالمی مسابقت۔

عالمی جنگی تیاریوں پر سنجیدہ نگاہ رکھنے والے موقر سویڈش ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ( سپری ) کی تازہ سالانہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پہلی بار بین الاقوامی جوہری تصادم کا امکان ایک حقیقت بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

گزشتہ برس اقوامِ عالم نے جتنا اسلحہ خریدا یا بیچا وہ بے مثال ہے۔نو جوہری ممالک ( امریکا ، روس ، چین ، برطانیہ ، فرانس ، بھارت ، پاکستان ، شمالی کوریا ، اسرائیل ) ایک نئی ایٹمی دوڑ میں مبتلا ہیں۔اگرچہ امریکا اور روس نے لگ بھگ ایک ہزار پرانے ایٹمی ہتھیار اسکریپ کر دیے ہیں مگر ان کی جگہ زیادہ تباہ کن ایٹمی ہتھیار لے رہے ہیں۔بدقسمتی سے ان ہتھیاروں پر کنٹرول کے لیے کوئی نیا عالمی معاہدہ سرِدست مشکل ہے۔جب کہ پرانے معاہدوں پر بھی عمل درآمد ناقص یا نہ ہونے کے برابر ہے۔

سپری رپورٹ کے مطابق کرہِ ارض پر اس وقت بارہ ہزار ایک سو اکیس جوہری ہتھیار ہیں۔ نوے فیصد ہتھیار صرف دو طاقتوں ( امریکا اور روس) کی تحویل میں ہیں ( پانچ ہزار چار سو انسٹھ امریکا اور پانچ ہزار ایک سو ستر روس کی ملکیت ہیں۔ )

اس ذخیرے میں سے لگ بھگ ایک ہزار پرانے جوہری ہتھیار دونوں ممالک ایک سمجھوتے کے تحت ختم کرنے کے پابند ہیں۔تاہم امریکا نے تلف ہونے کے لیے مختص ہتھیاروں کی جگہ گزشتہ برس اپنے ذخیرے میں تقریباً دو سو اسمارٹ نیوکلئیر ہتھیاروں کا اضافہ کر لیا ۔

عالمی سطح پر نو ہزار پانچ سو پچاسی جوہری ہتھیار براہِ راست فوجی تحویل میں ہیں۔ان میں سے تین ہزار نو سو چار ہتھیار میزائیلوں اور طیاروں پر نصب ہیں۔ان میں سے اکیس سو کسی بھی وقت داغے جانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔

روس نے گزشتہ دو برس میں کچھ جوہری ہتھیار بیلاروس منتقل کیے ہیں اور اپنے جوہری نظریے میں بھی تبدیلی کی ہے۔یوکرین پر چڑھائی سے پہلے روس کا جوہری نظریہ یہ تھا کہ ایٹمی ہتھیار صرف اس صورت میں استعمال ہوں گے جب ملک کی سلامتی اور جغرافیے کو سنگین بقائی خطرہ لاحق ہو۔لیکن اب ’’ بقائی ‘‘ کے بجائے زمین ، فضا اور سمندر سے لاحق ’’ سنگین ‘‘ خطرے کے سدباب کے لیے بھی جوہری ہتھیار استعمال ہو سکتے ہیں۔یعنی ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے لیے خطرے کا لیول ایک درجہ گھٹا دیا گیا ہے۔

  گزشتہ برس فرانس کے جوہری اسلحہ خانے میں دو سو نوے اور برطانیہ کی تحویل میں دو سو پچیس ہتھیار تھے۔

سپری رپورٹ کے مطابق چین کے پاس اس وقت لگ بھگ چھ سو جوہری ہتھیار ہیں۔چین اپنے شمالی صحرائی علاقوں اور پہاڑوں میں ان ہتھیاروں اور میزائیلوں کے لیے نئی زخیرہ گاہیں بھی تعمیر کر رہا ہے۔اگرچہ چین کا جوہری نظریہ اب تک یہی ہے کہ وہ استعمال میں پہل نہیں کرے گا۔تاہم چین اور بھارت اب اس پالیسی کو تبدیل کر رہے ہیں کہ وہ امن کے دور میں ایٹمی ہتھیار میزائیلوں پر نصب نہیں کریں گے۔

بھارت کی تحویل میں سپری کے مطابق ایک سو اسی اور پاکستان کے پاس ایک سو ستر جوہری ہتھیار ہیں۔بھارت کی پوری توجہ ایسے طویل مار میزائیلوں کی تیاری پر ہے جنھیں بیک وقت پاکستان اور چین کے خلاف تیار رکھا جا سکے۔

شمالی کوریا کے پاس لگ بھگ پچاس جوہری ہتھیار تیار حالت میں ہیں اور چالیس مزید ہتھیار بنانے کا مواد موجود ہے۔شمالی کوریا چھوٹے جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں بھی ماہر ہو چکا ہے۔

اسرائیل نے اگرچہ جوہری طاقت ہونے کا اب تک رسمی اعلان نہیں کیا مگر سپری کا اندازہ ہے کہ اسرائیل پچھلے ساٹھ برس سے غیر اعلانیہ جو ہری طاقت ہے اور اس کی تحویل میں کم از کم نوے ہتھیار ہیں۔

سپری کی سالانہ رپورٹ کے مطابق جنگی ہلاکتیں بھی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہیں۔دو ہزار تئیس کے دوران سنگین تنازعات میں ایک لاکھ اٹھاسی ہزار فوجی اور شہری مرے جب کہ دو ہزار چوبیس میں یہ تعداد دو لاکھ انتالیس ہزار تک پہنچ گئی۔

بے یقینی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ اب سویڈن ، ڈنمارک ، ناروے ، فن لینڈ جیسے روائیتی پرامن ممالک جو کل تک جوہری عدم پھیلاؤ کے پرزور وکیل تھے آج وہ بھی ایک مشترکہ ’’ نارڈک نیوکلئیر بم ’’ بنانے کا سوچ رہے ہیں۔فن لینڈ ، سویڈن اور پولینڈ نے امریکا کو اپنی سر زمین پر جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔

کہنے کو اقوامِ متحدہ کے ایک سو ترانوے میں سے ایک سو اٹھتر ارکان نے جوہری تجربات کی روک تھام کے معاہدے سی ٹی بی ٹی پر دستخط کر رکھے ہیں اور تہتر ممالک نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے ( این پی ٹی ) کی توثیق کر رکھی ہے۔تاہم گزشتہ تین برس میں جس طرح امریکا ، روس ، بھارت اور اسرائیل نے مستند بین الاقوامی سمجھوتوں ، کنونشنز اور بین الاقوامی قانونی فیصلوں کو جوتے کی نوک پر رکھا ہے۔اس رجحان کی دیکھا دیکھی دیگر ممالک بھی اپنی اپنی گلی میں شیر ہوتے جا رہے ہیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات