26 C
Lahore
Thursday, June 26, 2025
ہومغزہ لہو لہوسائن بورڈز - ایکسپریس اردو

سائن بورڈز – ایکسپریس اردو


پتا تو یہی لگ رہا ہے مگرجانے جو پہچان انھوں نے بتائی تھی، وہ کہاں گئی۔ گوگل کی ایپ بھی بار بار یہیں گھما پھرا کر لاتی ہے اور یہاں پہنچ کر کہتی ہے کہ آپ کی منزل مقصود آ گئی ہے۔ یہاں پر تو کوئی بڑا سا لال سائن بورڈ نہیں ہے جس پر فلاں فلاں پزا کی دکان کا نام لکھا ہو… ہاں جو عامل نجومی والا بورڈ انھوں نے بتایا تھا وہ تو یہاں موجود ہے۔

ایک کمپنی کا لال بورڈ… اس کے ساتھ سے دائیں مڑ جائیں۔ آگے پھلوں اور سبزیوں کی منڈی نما مارکیٹ ہے، اس کے آخر پر عامل نجومی بابا کا وہی نیلا بورڈ جس پر لال رنگ سے لکھا ہوا ہے، پتھر دل محبوب آپ کے قدموں میں، سخت سے سخت دل محبوب کو مائل اور قائل کریں۔ دشمنوں سے ایک دن میں نجات… اس بورڈ سے بھی بڑا بورڈ نظر نہیں آ رہا تھا جسے لال رنگ کا ہونا تھا اور اس پر کالے رنگ سے پزا کی دکان کا نام لکھا ہوناتھا۔

اچانک احساس ہوا کہ ارد گرد اور سڑک کے دونوں اطراف کی دکانوں کے بورڈ ایک جیسے رنگ اور سائزکے ہیں، سبز اور سفید۔ ان بورڈز کو پڑھنا شروع کیا تو ایک دکان گاڑیوں کے ٹائروں کی تھی، ساتھ والی مچھلی فروش کی، پھر مٹھائی کی، اس کے ساتھ کتابوں کی، اس کے ساتھ سائیکلوں کی اور اسی طرح کپڑوں ، جوتوں اور برتنوں کی دکانیں مگر ان سب کا ایک جیسا رنگ اور ایک جیسا سائز۔

گاڑیوں کے ٹائروں کے بورڈ پر ٹائر، مچھلی کی دکان کے بورڈ پر مچھلی، برتنوں کی دکان کے بورڈ پر مچھلی، جوتوں کی دکان کے بورڈ پر جوتے ، مٹھائی کی دکان کے بورڈ پر مٹھائی کی، کپڑوں کی دکان کے بورڈ پر، جوتے اور سائیکلوں کی دکان کے بورڈ پر سائیکل کی تصویر بھی نہیں بنی ہوئی تھی۔ اتنے سادہ اور پھیکے سے بورڈکہ انھیں دیکھ کر کشش بھی محسوس نہ ہو اور نہ دل کھنچے کہ مچھلی کھائی جائے۔

یہ علاقہ مارکیٹ سے زیادہ کسی سیاسی جماعت کا دفتر نما علاقہ زیادہ لگ رہا تھا۔ یہ شاید صوبے کو صاف ستھرا رکھنے کی مہم کا ایک حصہ ہے مگر اس سے بالکل تاثر نہیں مل رہا تھا کہ یہ کوئی بازار ہے، ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی سرکاری دفاترہیں یا کچہری میں مختلف وکیلوں کے دفاتر کے بورڈ ہیں۔ صفائی کی مہم میں جہاں پر زور دیا جانا چاہیے، وہ وہیں کے وہیں ہیں۔ کئی جگہوں پر جو سڑک سے واضع نظر نہیں آتیں، وہاں کوڑے کے ڈھیر بھی ہیں۔

کہیں جو تجاوزات کو ہٹانے کے لیے غیر قانونی تھڑے اور سیڑھیاں بنائی گئی تھیں یا نالوں کو ڈھک کر ان پر دکانوں کے تھڑے بنائے گئے تھے، انھیں توڑ تو دیا گیا مگر ان کھل جانے والے نالوں سے بدبو کے بھبکے بھی اٹھ رہے تھے اور جو چار دن میں مون سون شروع ہو جائے گا تو سب غلاظتیں اور آلائشیں ابل ابل کر باہر آ جائیں گی اور ماحول کی ’’ خوبصورتی‘‘ کو دوبالا کر دیں گی۔

اگر آپ نے کسی ایک صوبے یا اس کے شہروں کو صاف ستھرا بنانے کی کاوشوں کا آغازکیا ہے تو اس کے لیے ایسی غیر ضروری چیزوں کی کیا ضرورت ہے؟ دکانوں کے ایک جیسے بورڈ بنانا توکسی بھی طرح اس زمرے میں نہیں آتا کہ اس سے صفائی کا کوئی بہت اچھا تاثر ابھرے، دنیا بھر میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ ہر دکان کا، دکاندار کا، کاروبار کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے۔

مچھلی، مٹھائی ، کتابوں اور سائیکلوں کی دکانوں کے ایک جیسے بورڈ ہونے کا کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آتا۔ ہمارے ہاں تو لوگوں کے گھروں اور خالی پلاٹوں پر لکھی ہوئی اشتہاروں کی عبارتیں ہی بیس بیس سال تک لوگوں کو راستہ سمجھانے کے لیے استعمال ہوتی ہیں، اگر کسی وجہ سے وہ دیوار ڈھا دی جائے جس پر وہ عبارت لکھی ہو یا اس پر لکھی ہوئی عبارت کو مٹا کر کچھ اور لکھ دیا جائے تو لوگوں کو پتا سمجھانے اور سمجھنے میں مشکل پیش آتی ہے کجا یہ کہ آپ بیس فٹ کا بڑا سا بورڈ اتار کر اس پر عام سا سادہ سفید بورڈ لگا دیں اور وہ اس بورڈ سے ذرا سی بھی مماثلت نہ رکھتا ہو۔ بالآخر کسی سے پوچھنے پرعلم ہوا کہ انھی سفید اورہرے رنگ کے سائن بورڈز میں سے ایک سائن بورڈ اسی پزا شاپ کا ہے جس کے ساتھ سے گلی مڑتی ہے جس میں ہمیں جانا تھا۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات