33 C
Lahore
Wednesday, June 25, 2025
ہومغزہ لہو لہوسامراجی جارحیت کے مقابل ایک تاریخی مزاحمت

سامراجی جارحیت کے مقابل ایک تاریخی مزاحمت


مشرقِ وسطیٰ ایک بار پھر عالمی طاقتوں کی نظریں اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔ یہ خطہ جو صدیوں سے تہذیب کا مرکز رہا ،آج عالمی سیاست سامراجی مداخلت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحرانوں کا مرکز بن چکا ہے۔ ایران اور اسرائیل کا حالیہ تصادم اس خونی بساط کا تازہ باب ہے، ایک ایسا باب جس میں ہدف صرف فوجی تنصیبات یا سائنسدان نہیں بلکہ پورے خطے کی خودمختاری اس وقت داؤ پرہے۔

ایران پر حالیہ حملے کو محض ایک دفاعی کارروائی کہنا سیاسی بددیانتی ہے۔ اسرائیل کی جانب سے ایرانی سائنسدانوں، عسکری اداروں اور حتیٰ کہ رہائشی علاقوں کو نشانہ بنانا ایک کھلی جارحیت ہے جس کی پشت پر امریکا اور اس کے اتحادی کھڑے ہیں۔ امریکا جو بظاہر دنیا میں جمہوریت اور امن کا علمبردار بننے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے خود سامراجی سازشوں کا سب سے بڑا کارندہ ہے، عراق کی تباہی، افغانستان پر حملہ، لیبیا کی بربادی اور اب ایران پر حملے، یہ سب امریکی خارجہ پالیسی کی تلخ حقیقتیں ہیں۔

ایران کو ان حملوں کے جواب میں کمزور دکھانے کی کوشش بار بار کی گئی مگر تاریخ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایران چاہے داخلی سطح پر کتنا ہی متنازع ہو، جب سامراجی قوتیں اس کے دروازے پر دستک دیتی ہیں تو وہ مزاحمت کی ایک ایسی مثال قائم کرتا ہے جو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ دنیا بھر کے مظلوم عوام کے لیے طاقت اور حوصلے کا پیغام بن جاتی ہے۔

 ایران نے صرف دفاع نہیں کیا بلکہ جارحیت کرنے والی قوتوں کو پیغام دیا ہے کہ حملے کا جواب حملے سے دیا جائے گا۔ اسرائیل کے حساس ٹھکانوں پر ایرانی میزائلوں کی بارش اس بات کا اشارہ ہے کہ ایران اب اس پرانی حکمت عملی سے آگے بڑھ چکا ہے جس میں صرف خاموشی اور دفاعی بیانات پر اکتفا کیا جاتا تھا۔ یہ نیا ایران ہے جسے عالمی سامراج کی چالوں کا شعور حاصل ہے۔

لیکن ہمیں یہ بھی بھولنا نہیں چاہیے کہ ایران کوئی فرشتہ صفت ریاست نہیں، بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے کسی بھی قلمکار کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے تجزیے میں توازن برقرار رکھے۔ ایران میں شہری آزادی محدود ہے، عورتوں پر لباس کے معاملے میں سختی کی جاتی ہے ،اختلافِ رائے کو دبانے کے لیے سیکیورٹی ادارے متحرک رہتے ہیں۔

ان تمام مظالم کے خلاف ایرانی عوام نے خود آواز اٹھائی ہے، چاہے وہ زن، زندگی، آزادی کا نعرہ ہو یا طلبہ کی تحریکیں ایرانی عوام نے بارہا ریاستی جبر کے سامنے کھڑے ہو کر یہ ثابت کیا ہے کہ مزاحمت صرف بیرونی دشمن کے خلاف نہیں ہوتی بلکہ داخلی استبداد کے خلاف بھی کی جاتی ہے۔ یہی ایرانی عوام جو اپنے ملک میں بہتر زندگی آزادی اور جمہوریت کے خواہاں ہیں، وہی عوام آج اسرائیلی بمباری کے خلاف بھی سینہ سپر ہیں۔ ان کی یہ دہری مزاحمت داخلی جبر اور خارجی جارحیت کے خلاف ہے۔

اسرائیل جسے امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر کہا جاتا ہے، مشرق وسطیٰ میں وہی کردار ادا کر رہا ہے جو جنوبی امریکا میں چلی یا افریقہ میں جنوبی افریقہ نے اپنے وقت میں سامراج کے مفادات کے تحفظ کے لیے ادا کیا تھا۔

فلسطین کی سرزمین پر جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے وہ کسی بھی انسانی ضمیر رکھنے والے شخص کے لیے ناقابل قبول ہے، آج اگر وہی جارحانہ پالیسی ایران کے خلاف آزمائی جا رہی ہے تو یہ سوال ضرور اٹھایا جانا چاہیے کہ عالمی طاقتیں کس بنیاد پر اس ظلم کو جواز فراہم کرتی ہیں؟آج ایران اپنے تمام داخلی تضادات کے باوجود سامراجی حملے کے خلاف ایک دیوار کے طور پر کھڑا ہے اور اس کی مزاحمت فلسطین کی مزاحمت سے مختلف نہیں دونوں مظلوم ہیں دونوں پر حملہ ہوا اور دونوں نے جھکنے سے انکار کیا۔

اگر ایران کی جوابی کارروائیوں سے اسرائیل کا امن تہہ و بالا ہوا ہے تو یہ اسی تاریخ کا تسلسل ہے جس میں ہر مظلوم جب اپنی طاقت پہچانتا ہے تو ظلم کے ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے، آج اگر تل ابیب میں پناہ گاہیں بھر رہی ہیں اور اسرائیلی شہری خوف زدہ ہیں تو یہ وہی خوف ہے جس کا سامنا برسوں سے غزہ کے باسی کرتے آ رہے ہیں۔ اس لیے یہ وقت دہرا معیار اپنانے کا نہیں بلکہ صاف صاف کہنے کا ہے کہ طاقت کے توازن کو چیلنج کرنا کسی بھی خطے کی سا لمیت اور وقار کا لازمی تقاضا ہے۔

ایران کی عسکری طاقت ایک حد تک محدود ہے مگر اس کا سب سے بڑا ہتھیار اس کی نظریاتی بنیاد ہے ایک ایسی سوچ جو سامراج کو قبول نہیں کرتی چاہے وہ مغربی لباس میں آئے یا مشرقی چہرے لگا کر یہی سوچ ایران کو فلسطین کے قریب لاتی ہے لبنان کی حزب اللہ کے ساتھ جوڑتی ہے اور یمن کے مظلوموں کی حمایت پر آمادہ کرتی ہے۔

یورپ اور امریکا میں بیٹھے پالیسی سازوں کے لیے یہ امر ناقابلِ قبول ہے وہ چاہتے ہیں کہ خطے کی ہر آواز ان کے اشارے پر چلے ہر ریاست ان کے مفاد کی نگہبان ہو اور عوام سامراجی پالیسیوں کی کٹھ پتلی ہوں ایران اس ماڈل میں فٹ نہیں بیٹھتا اور یہی اس کی اصل خطا ہے۔

ایران کی جارحانہ دفاعی حکمت عملی اور اس کے پس منظر میں موجود عالمی سیاست کو سمجھے بغیر اگر ہم تجزیہ کریں گے تو ہم یا تو سامراج کے ترجمان بنیں گے یا خود فریبی کا شکار۔ آج اگر تہران کے باسی دھماکوں کی آواز سے جاگتے ہیں تو ان کے دل میں خوف کے ساتھ ساتھ مزاحمت کی آگ بھی سلگ رہی ہے اور یہی مزاحمت اس خطے کو بچائے گی نہ صرف اسرائیلی بموں سے بلکہ عالمی سامراج کی ان تمام سازشوں سے جو اس خطے کی سرزمین کو تجربہ گاہ بنانا چاہتے ہیں۔

ہمیں نہ ایران کی مذہبی آمریت کی حمایت کرنی ہے نہ اسرائیل کی عسکری جارحیت کو قبول کرنا ہے۔ ہمیں وہی راستہ اپنانا ہے جو عوام کا راستہ ہے آزادی خودمختاری، مزاحمت اور انصاف کا۔ ایران اگر اس راستے پر ثابت قدم ہے تو وہ تنہا نہیں دنیا کے کروڑوں مظلوم فلسطینیوں سے لے کر لاطینی امریکا تک سب اس کے ساتھ ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات