لاہور:
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان کا کہنا ہے کہ بظاہر تو اس وقت ایران بری طرح پھنسا ہوا ہے اس میں کوئی شک والی بات نہیں ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے آج پھر رجیم چینج کی بات کی، رضا پہلوی کا خامنہ ای سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی آ چکا ہے تو وہ تو ساری چیزیں اپنی جگہ چل رہی ہیں، ایران کی طرف سے بیانات بھی بڑے سخت آ رہے کہ جنگ شروع امریکا نے کی ہے ختم ہم کریں گے.
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکپسرٹس میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا آپ اندازہ کریں، میں اس دن عرض کر رہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پرآپ اعتبارنہیں کر سکتے.
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ ایران اور اسرائیل کی لڑائی میں اگر نقصان کا تقابلی جائزہ لیں تو ہو سکتا ہے کہ اسرائیل کی نسبت ایران کا نقصان زیادہ ہوا ہو، اسرائیل معاشی طور پت ، عسکری طور پہ، ایران سے بڑی طاقت ہے لیکن اس جنگ میں وہ ایران پر اپنی عسکری بالا دستی قائم کرنے میں قطعی ناکام ہوا، دوسری طرف اسرائیلی عوام بہت خوفزدہ ہے، لاکھوں لوگ اپنے گھروں میںنہیں سو رہے، یہ منظر ہمیں ایران میں نظر نہیں آ رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی قوم ابھی خوفزدہ نہیں ہے.
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ اب اصل ایشو یہ ہے کہ سیٹیمنٹس میں اگر آپ بات کرتے ہیں جذباتی کہ ایران نے تو تباہ کر دیا ہے اسرائیل کو بالکل ٹھیک بات ہے، یہ مناظر کبھی نہیں آئے تھے کہ وہ اپنے شہریوں کو کہہ رہے ہیں کہ اڑتالیس گھنٹوں کے لیے باہر نہ نکلو فلاں نہ کرو لیکن اس کا اسرائیل میں تو چوبیس لوگ مارے گئے، ایران میں بچا کون؟ ان کی تمام ملٹری قیادت پہلے دن مار دی جوہری سائنسدان مار دیے، وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کے سپریم لیڈر کو نشانہ بنا سکتے ہیں، ہم نے روکا ہوا ہے.
تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ معاملات کس طرح آگے بڑھیں گے اس کا بہت حد تک دارومدار اس پر ہے کہ ایران کا ممکنہ جواب کیا ہو گا کیونکہ امریکا نے تین ایٹمی تنصیبابات پرجو حملے کیے تھے، اس کے بعد ایران کا ردعمل دیکھیں تو ایک تو وہ کہہ رہے ہیں کہ ان حملوں میں ان کا بہت زیادہ نقصان نہیں ہوا، وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر ان کا کوئی نیوکلیئر میٹریل تھا بھی اس کو پہلے ہی وہاں سے ہٹا دیا گیا تھا.
سابق سفیر جمیل احمد خان نے کہا کہ حالات اور معاملات بہت کمپلیکس ہوتے نظر آ رہے ہیں اور کمپلیکس اس لیے ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ اس کا پورا ایک پس منظر ہے، پس منظر یہ ہے کہ اگر ہم صرف ایک کاغذ پر لکھ لیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے پچھلے تین مہینوں میں کیا کہا اور آخری دس دنوں میں کیا کہا اور نیتن یاہو نے پچھلے پندرہ سال میں کیا کہا تو اس سے اندازہ ہو جائے گا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، جو نظر آ رہا ہے سامنے کہ ایران نے ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ کہا ہے کہ ہم اپنا حق دفاع استعمال کریں گے ہم سرپرائز دیں گے۔