28 C
Lahore
Sunday, June 22, 2025
ہومغزہ لہو لہوچو مکھی میں پھنسا ہوا امریکا

چو مکھی میں پھنسا ہوا امریکا


مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ غزہ کے بے گھر اور در بدر ہونے والے خاندان اپنی بے کسی پر اور معصوم بچوں کے لاشے اٹھانے والے ماں باپ حماس اور اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور غزہ کے قتل و غارت پر اسرائیل کے قہر کا ساتھی حماس کو بھی سمجھ رہے ہوں گے،جب کہ بے گھر ہونے اور جوان لاشے اٹھانے والوں کی نظر میں اسرائیلی ظلم اور بمباری کے مجرم حماس اور اسرائیل ایک ہی صف میں کھڑے نظر آرہے ہوں گے۔

حماس کے ضمن میں یہ بات یاد رہے کہ 1986 میں امریکا نے فلسطین کی مضبوط ’’الفتح تنظیم‘‘ کو کمزور کرنے کے لیے شیخ یاسین کی سربراہی میں اپنی پراکسی حماس کو مذہبی بنیاد پر کھڑا کیا تھا،مگر پھر وقت اور حالات کے جبر نے الفتح تنظیم کو امریکا کی بہترین اتحادی بنا دیا،جس کے بعد فلسطین کے امور میں حماس کی وہ اہمیت و حیثیت نہ رہی جو 90 کے عشرے تک رہی۔

اسی وجہ سے فلسطین کی آزادی کی جنگ میں حماس نے الفتح کے اقتدار کے خلاف مذہبی بنیاد پر اختلاف کیا اور دنیا کو یہ تاثر دیا کہ وہ امریکا کی پراکسی نہیں بلکہ فلسطین کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کرنے والی فلسطین کے مفادات کی تنظیم ہے۔

مگر فلسطین کے حالات اور اسرائیلی بربریت نے ثابت کیا کہ امریکا/اسرائیل گٹھ جوڑ نے اسماعیل ہانیہ کی حماس میں ایک متبادل قیادت ابھار کر اسے اپنی پراکسی بنایا اور پھر حماس اسی پراکسی کے ذریعے اسرائیل کی مدد سے اسماعیل ہانیہ سمیت لبنان کے حزب اسلامی کے سربراہ نصراللہ،ایرانی کمانڈر باقر اور ایرانی صدر رئیسی کا خاتمہ کرکے مشرق وسطیٰ میں نہ صرف اسرائیل کی بالادستی کو مضبوط کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی ایران کی دفاعی اور خفیہ صلاحیتوں پر بھی سوالات کھڑے کیے۔ 

اور اسرائیل کو فلسطین و غزہ کی طرح ایران پر حملہ کرنے کے مواقعے بھی فراہم کیے،جب کہ اسی اثنا ایران میں اسرائیل اور بھارت کے نیٹ ورک کے ذریعے موساد کا ایران میں اثر و نفوذ بھی بڑھایا،جس نے اسرائیل کو ایران کے خلاف نیو کلیئر بم رکھنے کے بہانے ایران پرحملہ کرنے کا جواز بھی فراہم کیا۔

یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ ایران پہلے ہی جوہری ہتھیار نہ بنانے کے NPTمعاہدے اور IAEA کے معائنے کرنے کی دستاویز پر عمل پیرا ہوکر عالمی طاقتوں سے جوہری ہتھیاروں پر مذاکرات کے لیے راضی بھی تھا اور اسرائیل کے حملے سے پہلے امریکا سے مذاکرات کرنے کا دن اور تاریخ بھی طے کر چکا تھا،سوال یہ ہے کہ پھر اسرائیل نے تماتر مثبت اشاروں کی موجودگی میں بھی اچانک ایران پر کیوں حملہ کیا اور اس کے اعلیٰ فوجی جنرل اور سائنسدانوں کو کس لیے مارا؟اسرائیل کی جانب سے حملہ آور ہونے کی یہ کوشش کیوں ہوئی یا اس کے مقاصد کیا رہے یا ابھی تک ہیں؟

اس مذکورہ حملے اور اس کے مقاصد پر دنیا بھر میں خیال آرائی اور جائزے پیش کیے جارہے ہیں،کچھ کا خیال ہے کہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے کی تکمیل کے لیے امریکی صدر ٹرمپ بہت زیادہ جلدی میں ہیں،کسی کا اندازہ ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہونے کے بیان کے بعد اسرائیل اس جنگ کو امریکی آشیرباد کے سہارے جاری رکھنے کی کوشش ایران کی رجیم چینج کی وجہ سے کر رہا ہے جب کہ کچھ کی رائے ہے کہ امریکا اور اسرائیل مشرق وسطی کو کمزور کرنے کے بعد اپنی بالا دستی وسط ایشیائی خطے پر حاصل کرنا چاہتا ہے جس کا فائدہ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ امریکا کو اپنی عالمی ساکھ قائم رکھنے کا ہوسکتا ہے یا کہ امریکا چین اور روس کے اثر کو خطے سے مکمل ختم کرکے خطے میں امریکی بالادستی چاہنے کے علاوہ امریکا چین کی مضبوط عالمی معیشت کو نقصان پہنچا کر اس خطے کو مکمل اپنی کالونی بنانا چاہتا ہے۔

ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں جنگ رکوانے کی کوششوں میں عالمی طور پر اکثریت روس اور چین کے موقف کے ساتھ ہے جس کے تحت فوری جنگ بندی کے ساتھ مسائل کا حل سفارتی سطح پر طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے جس کی ایک کڑی جینوا میں فرانس ،جرمنی ،برطانیہ اور ایران کا انسانی حقوق سلامتی کونسل اجلاس میں مذاکرات جاری رکھنے کا مشترکہ لائحہ عمل ہے۔

انسانی حقوق کونسل میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ایران کا موقف رکھتے ہوئے کہا ہے کہ’’ہم اسرائیل کی بلا جواز جارحیت کا شکار ہیں جس میں ہم نے اپنے پیاروں کی قیمتی جانیں گنوائی ہیں،ہم جنگ نہیں چاہتے مگر اسرائیل کی سفاکانہ اور بلا جواز جارحیت کو بھی قبول نہیں کریں گے اور اسرائیلی جارحیت کا بھرپور مقابلہ کریں گے،عراقچی کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو جارحیت سے باز رکھوایا جائے،ہم پہلے بھی مذاکرات سے حل پر آمادہ تھے اور اب بھی ہم جوہری اور علاقائی مسئلے مذاکرات سے حل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

ایران کے وزیر خارجہ کے مذکورہ بیان کو روس اور چین کے موقف کا پرتو کہا جاسکتا ہے،اس سے قبل اسرائیل کے نیتن یاہو اور امریکی صدر ٹرمپ ایران کے سپریم کمانڈر کو قتل کرنے کے بیان پر اکٹھے تھے،پھرامریکا اور اسرائیل رجیم چینج پر ایک آواز ہوئے جب کہ عالمی دباؤ کے نتیجے میں اب امریکا اور اسرائیل نہ سپریم کمانڈر کے قتل پر آمادہ نظر آتے ہیں اور نہ رجیم چینج پر ایک آواز ہیں،جب کہ دوسری جانب امریکا کے اس جنگ میں شامل ہونے کی بڑھکیں بھی آہستہ آہستہ دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔

جب کہ ایران کی رجیم چینج کی جب سے مخالفت ایران کی سب سے طاقتور اپوزیشن ’’تودہ پارٹی/کمیونسٹ پارٹی‘‘ روس اور چین کی جانب سے ہوئی ہے تو امریکا اور اسرائیل ایران کی یکجہتی اور تودہ پارٹی کے اصولی موقف کی روشنی میں کم از کم رجیم چینج کے بے سروپا مطالبے پر ٹکتے نظر نہیں آتے،اس میں اس خیال کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ امریکا اور اسرائیل کی کسی بھی حماقت سے اقتدار تودہ پارٹی یا گرین تحریک کے ریفارمسٹ کی جانب نہ چلا جائے یا ان کے حوالے کر دیا جائے۔

اسرائیل کی ایران پر جارحیت کے خلاف دنیا کی اکثریت اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے جنرل سیکریٹری نے واضح طور پر کہا ہے کہ’’ہم دنیا کو امن کا پیغام دینا چاہتے ہیں اور خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ ایران اسرائیل کا تنازعہ بڑھا تو پھر یہ کسی کے بھی کنٹرول میں نہیں رہے گا‘‘ ایران پر جنگ مسلط کرنے کے ماحول میں ایرانی عوام کی یکجہتی امریکا کے لیے ایران کی موجودہ حکومت سے زیادہ مہلک ثابت ہوتی نظر آرہی ہے۔

جب کہ عالمی برادری خطے میں امریکا اسرائیل کے کردار اور گٹھ جوڑ کو سمجھتی ہے اور اسی خطرے کے پیش نظر امریکا عالمی مخالفت کو سر دست اپنے حصے میں ڈال کر ویتنام کی شکست کو شاید دہرانا نہیں چاہتااور شاید یہی وجہ ہے کہ پینٹاگون اور امریکی کانگریس کے بیشتر ارکان اس جنگ میں امریکا کی براہ راست مداخلت کے حق میں نہیں ہیں اور اسی کے ساتھ امریکا کے سامنے چین کی مضبوط معیشت کو کمزور کرنے کا خواب،ایران کی رجیم چینج،ایران کی یکجہتی ختم کرنے یا ایران کے سپریم کمانڈر کا قتل ایسے مشکل اہداف ہیں جن میں سے وہ فوری طور سے نکل کر اپنی عالمی ساکھ بچاناچاہتا ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا پہ اس چومکھی کشمکش کے لالوں کے اثرات کتنے گلے پڑتے ہیں؟



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات