37 C
Lahore
Saturday, June 21, 2025
ہومغزہ لہو لہوججز تبادلہ کیس کا فیصلہ

ججز تبادلہ کیس کا فیصلہ


سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز تبادلہ کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ججز کے تبادلہ کو آئینی اور قانون کے مطابق قرار دے دیا ہے۔ اسی کے ساتھ سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو سنیارٹی کا معاملہ طے ہونے تک بطور چیف جسٹس کام جاری رکھنے کا بھی کہا ہے۔

تاہم سنیارٹی کا معاملہ طے کرنے کے لیے صدر مملکت کو کہا گیا ہے۔ اب اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی سنیارٹی کا معاملہ واپس صدر مملکت کے پاس چلا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے خود یہ معاملہ طے نہیں کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ تبادلہ کو نئی تعیناتی نہیں کہا جاسکتا ۔

یہ فیصلہ دو تین کے تناسب سے آیا ہے۔ تین ججز نے تبادلہ کو درست قرار دیا ہے۔ جب کہ دو ججز نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا ہے اور اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔ تین ججز نے ججز کے تبادلے کے نوٹفکیشن کو آئینی قرار دیا ہے۔ جب کہ دو ججز نے نوٹفکیشن کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسے منسوخ کرنے کا کہا ہے۔

صدر مملکت کا ججز کے تبادلے کا اختیار آئین میں موجود ہے۔ اسی لیے اکثریتی ججز نے قرار دیا ہے کہ آئین میں دیے گئے اختیارات کو کوئی قانون ختم نہیں کر سکتا۔ یہ سادہ بات ہے کہ آئین کو قانون پر ترجیح حاصل ہے۔ اگر آئین وقانون میں اختلاف ہو تو آئین کی جیت ہوگی۔قانون کی آئین کے سامنے کوئی حیثیت نہیں۔ اس لیے صدر مملکت کے آئینی اختیار کو نہ تو کوئی عدالت ختم کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی قانون ختم کر سکتا ہے۔

یہ کیس اس لیے بھی دلچسپ تھا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت ججز کی تعیناتی کا اختیار جیوڈیشل کمیشن کو حاصل ہے۔ اس لیے عدالت کے سامنے یہ نقطہ بھی تھا کہ ججز کے تبادلے کا اختیار جیوڈیشل کمیشن کو حاصل نہیں ہے۔ اس لیے کیا ججز کے تبادلے بھی جیوڈیشل کمیشن کے پاس نہیں ہونے چاہیے۔ ان تبادلوں کی توثیق جیوڈیشل کمیشن سے ہونی چاہیے۔ لیکن اب یہ آئین کی دو الگ الگ شقیں ہیں۔ تبادلے کا اختیار صدر کو بھی آئین نے دیا ہے۔ جب کہ نئے ججز کی تعیناتی کا اختیار بھی صدر مملکت کو آئین نے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے دنوں شقوں کو درست قرار دیا ہے۔

یہ کیس اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔ جن کا موقف تھا کہ یہ تبادلے غیر آئینی ہیں اور ان ججز کا موقف تھا کہ جب ایک جج کا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلہ ہوتا ہے تو اسے نئی تعیناتی قرار دیا جائے۔ اسے نیا حلف لینا چاہیے۔ اس کی پرانے ہائی کورٹ کی سنیارٹی ختم تصور کی جائے اور تبادلے کے بعد نئے ہائی کورٹ میں نئی سنیارٹی اور نئی تعیناتی قرار دی جائے۔ اب یہ منطق قابل فہم نہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ججز بھی ریاست کے ملازم ہیں۔ ان کی خود مختاری انھیں نہ تو آئین سے بالا بناتی ہے اور نہ ہی قانون سے بالا بناتی ہے۔ ججز آئین وقانون کے ماتحت ہی ہیں۔ انھیں کام بھی آئین وقانون کے دائرے میں ہی کرنا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہم ججز کی ایک یونین بھی دیکھتے ہیں۔ پہلے چھ ججز نے ایک خط لکھا۔ حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ ہائی کورٹ کے جج کے پاس عدلیہ کے نظام میں مداخلت روکنے کے تمام اختیارات موجود ہیں۔ اسے کسی سے مدد مانگنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر کوئی بیرونی مداخلت تھی تو جج خود روک سکتے تھے۔

اب دوسری طرف کی یہ دلیل بھی ہے کہ جب بانی تحریک انصاف کے مقدمات کے لیے تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ اسلام آباد ہائی کورٹ اکٹھے ہوتے ہیں، چیف جسٹس کے سیکریٹری کو ملتے ہیں، رجسٹرار کو ملتے ہیں تو کیا یہ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں۔ کیا صرف اسٹبلشمنٹ کا دباؤ ڈالنا غلط ہے اور تحریک انصاف کا دباؤ ڈالنا جائز ہے۔ کیا اب اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی خط لکھ دینا چاہیے۔ نہیں میں خطوں کو سیاسی خط سمجھتا تھا۔ اور سمجھتا ہوں۔

بہر حال میں سمجھتا ہوں اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے ججز جس مقصد کے لیے سپریم کورٹ گئے تھے انھیں وہ حاصل نہیں ہوا بلکہ الٹا کافی نقصان ہو گیا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس سرفراز ڈوگر کو تا حکم ثانی چیف جسٹس کے عہدہ پر برقرا ر رہنے کا حکم جاری کر دیا ہے۔ اب وہ جیوڈیشل کمیشن کی توثیق کے بھی محتاج نہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پہلے صدر مملکت سنیارٹی کا معاملہ طے کریں گے۔ پھر کچھ ہو گا۔

اس میں کچھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ صدر مملکت کو کوئی طاقت بھی فوری فیصلہ کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔ کوئی عدالتی فیصلہ بھی صدر مملکت کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ آپ فوری فیصلہ کریں۔ صدر مملکت کو عدالتی استثناء بھی حاصل ہے۔ اس لیے صدر مملکت کوئی جلدی میں نہیں ہونگے۔ اور پھر جب تک وہ فیصلہ نہیں کرتے جسٹس سرفراز ڈوگر نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے طور پر کام کرتے رہنا ہے۔ اس لیے صورتحال کافی کنٹرول میں ہے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ جسٹس ڈوگر جسٹس محسن اختر کیانی سے چھ ماہ پہلے جج بنے۔ اس لیے بطور جج وہ سینئر ہیں۔ وہ پہلے جج بنے اس میں کوئی ابہام نہیں۔

جہاں تک جسٹس محسن اختر کیانی کا تعلق ہے۔ اس کیس کے فیصلہ سے انھیں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اگر ججز کے تبادلہ کو غیر آئینی قرار دے دیا جاتا تو جسٹس محسن اختر کیانی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کی راہ ہموار ہوجاتی۔اب وہ راستہ بند ہو گیا ہے۔ اب انھیں صرف بطور جج ہی کام کرنا ہے اور وہ بھی جسٹس ڈوگر کے ماتحت کام کرنا ہے۔ کیا وہ اب مستعفی ہونگے یا وہ کام جاری رکھیں گے۔ ان کے مستعفیٰ ہونے کا بھی اسٹبلشمنٹ کو فائدہ ہوگا۔ جیوڈیشل کمیشن سے نئی تعیناتی ہو جائے گی۔ ویسے بھی عدلیہ میں اب اگر آپ سپر سیڈ ہو جائیں تو مستعفیٰ ہونے کا کلچر نہیں۔ اب یہی کلچر ہے کہ کام جاری رکھیں اور وقت کا انتظار کریں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات