34 C
Lahore
Saturday, June 21, 2025
ہومغزہ لہو لہوبلوچستان، محرومیوں کی داستان - ایکسپریس اردو

بلوچستان، محرومیوں کی داستان – ایکسپریس اردو


جب ہر سال وفاقی بجٹ کا شور اٹھتا ہے، تو بلوچستان کے عوام کے دلوں میں یہ سوال پھر سے جاگ اٹھتا ہے۔’’کیا اس بار ہمیں ہمارا حق ملے گا؟‘‘ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہر بارکی طرح اس بار بھی وفاقی بجٹ میں بلوچستان نظر اندازکردیا گیا۔ وفاقی وزراء اعداد و شمار کے رنگین گراف اور اربوں روپے کے وعدوں سے عوام کو متاثرکرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن اگر ان اعداد و شمارکو بلوچستان کے تناظر میں پرکھا جائے تو حقیقت کسی اور ہی کہانی کی غماز ہوتی ہے۔

بلوچستان کا سارا ترقیاتی بجٹ 250 بلین روپے رکھا گیا ہے۔ دیگر صوبوں میں اتنی رقم صرف موٹر وے کی تعمیرکے لیے رکھی گئی ہے۔ بلوچستان، جو پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے (رقبے کے لحاظ سے)، اس کو ہمیشہ آبادی کی بنیاد پرکم حصہ دیا جاتا ہے۔

وفاقی بجٹ میں بلوچستان کے لیے مختص رقم نہ صرف کم ہوتی ہے بلکہ جو منصوبے دکھائے جاتے ہیں، وہ اکثر کاغذی ہوتے ہیں یا غیر فعال۔ ہر بجٹ میں بلوچستان کے لیے کچھ مخصوص منصوبے شامل کیے جاتے ہیں، مگر اکثر یہ منصوبے سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد یا علاقوں تک محدود ہوتے ہیں۔ عوامی فلاح کے بنیادی منصوبے، جیسے اسپتال، اسکول یا سڑکیں، یا تو شامل ہی نہیں کیے جاتے یا سال کے آخر میں فنڈ جاری کر کے استعمال ناممکن بنا دیا جاتا ہے۔

 بلوچستان کو این ایف سی ایوارڈ میں اس کی پسماندگی، سیکیورٹی خدشات اور رقبے کے حساب سے زیادہ حصہ ملنا چاہیے، مگر حقیقت یہ ہے کہ آبادی کی بنیاد پر حصہ دینے کی پالیسی نے بلوچستان کو مسلسل نقصان پہنچایا۔ ساتواں این ایف سی ایوارڈ 2010 میں آیا، اس کے بعد اب تک کوئی نیا ایوارڈ نہیں دیا گیا، جو آئینی اور اخلاقی ناانصافی ہے۔

بلوچستان کو اکثر قومی وحدت کے استعارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، لیکن جب مالی معاملات آتے ہیں تو وہی بلوچستان ایک بے وزن خاکہ بن جاتا ہے۔ نہ صرف منصوبہ بندی میں بلوچستان کو شریک نہیں کیا جاتا، بلکہ زمینی حقائق سے منہ موڑکر ترقی کے دعوے کیے جاتے ہیں۔

بلوچستان کے امور کے ماہرین اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بلوچستان کی محرومی جس سوچ کی عکاس ہے اس نے بلوچستان میں سیاسی بے چینی کو جنم دیا ہے، اگر بلوچستان کو صرف وسائل کی زمین سمجھا جاتا رہے گا۔ مگر وہاں کے عوام کو بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا گیا، تو سوال اٹھانا فطری ہے کہ یہ بجٹ ہے یا محرومی کی سرکاری تصدیق؟ بلوچستان جغرافیائی لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ، مگر ریاستی ترجیحات میں سب سے پیچھے۔ ہر سال جب وفاقی بجٹ پیش ہوتا ہے یا ترقیاتی منصوبوں کے اعلانات ہوتے ہیں، بلوچستان کے عوام یہی سوال کرتے ہیں: ہمارا حصہ کہاں ہے؟ بلوچستان آج بھی صاف پانی، صحت، تعلیم، سڑکوں، روزگار اور انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ سیکڑوں دیہات آج بھی پانی کی بوند کو ترستے ہیں، اسپتالوں میں نہ ڈاکٹرز، نہ ادویات میسر ہے۔

ذرایع ابلاغ پر شایع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق بلوچستان کے دیہی علاقوں میں اسکولوں کی عمارتیں ناقص تعمیرات کی شاہکار ہیں۔ دو سال قبل آنے والے سیلاب سے بھی اسکولوں کی جو عمارتیں تباہ ہوئی تھیں وہ فنڈز کے اعلانات کے باوجود دوبارہ تعمیر نہیں ہوسکیں۔ اب بلوچستان میں خواندگی کا تناسب سرکاری اعداد و شمارکے مطابق 42 فیصد ہے مگر بلوچستان کے ماہرین ان اعداد و شمار کو حقائق کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے دیہی علاقوں میں خواندگی کی شرح بہت کم ہے۔ بلوچستان قدرتی معدنیات سے مالامال ہے۔

50ء کی دہائی میں ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی میں گیس ملی تھی۔ گزشتہ 60 سے 65 برسوں میں گیس ایک طرف کراچی اور دوسری طرف پشاور تک پہنچ گئی مگر آدھے سے زیادہ بلوچستان 65 برس بعد بھی سوئی گیس سے محروم ہے۔ بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں عام آدمی درخت کاٹ کر اور مٹی کے تیل کے چولھوں کے ذریعے توانائی کی ضرورت پوری کرتا ہے ، یہی صورتحال بجلی کی ہے ۔ مکران ڈویژن بجلی کی ضروریات کے لیے ایران سے آنے والی بجلی سے استفادہ کرتا ہے۔ ایران سے آنے والی بجلی 24 گھنٹے فراہم نہیں کی جاتی۔ عموماً 10 سے 12 گھنٹے بجلی دستیاب ہوتی ہے۔ اب ایران پر اسرائیل کے حملہ کے بعد ایران سے بجلی کی فراہمی کا معاملہ الجھ گیا ہے۔ بلوچستان میں اس وقت پٹرول اور ایران سے آنے والی بنیادی اشیاء کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔ بلوچستان میں سندک اور ریکوڈک میں نادر معدنیات موجود ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ان ذخائر میں سونا اور تانبہ پایا جاتا ہے، مگر اس صدی کے آغاز پر وفاقی حکومت سے ہونے والے ایک معاہدے کے تحت ان ذخائر سے بلوچستان کو 2 فیصد رائلٹی ملتی ہے۔ اس صدی کے پہلے عشرے میں سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا۔ چین کے اقتصادی راہداری کے اس منصوبے کے تحت گوادر سے چین تک ایک جدید موٹروے تعمیر کیا گیا۔ اسی طرح کراچی سے گوادر تک کوسٹل ہائی وے تعمیر ہوئی، چین نے گوادر میں جدید ایئرپورٹ تعمیرکیا۔ بلوچستان کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ سی پیک کے تمام منصوبوں میں مقامی افراد کو بہت کم ملازمتیں دی گئیں۔ گوادر کے صحافی یہ بھی کہتے ہیں کہ چپڑاسی اور کلرک کی آسامیوں کے لیے بھی مقامی افراد کو اہل نہیں سمجھا گیا۔

گوادر کے ماہی گیروں کے لیے بحیرئہ عرب میں ماہی گیری پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کیں۔ گوادر کے ماہی گیروں نے ایک سال تک احتجاجی تحریک چلائی۔ گوادر، رتوڈیرو شاہراہ پر دھرنے دیے گئے جس کے بعد حکام نے ماہی گیروں کو بحیرئہ عرب میں ماہی گیری کے لیے زیادہ وقت دینے پر اتفاق کیا۔ پھر بھی بحیرئہ عرب میں مختلف ممالک کے بڑے جہازوں کو جو جدید آلات سے لیس ہوتے ہیں، ماہی گیری کی اجازت دی گئی۔ ان جہازوں میں بڑے بڑے میکینکل جال ہوتے ہیں جو سمندر میں ساری مچھلیوں کو پکڑ لیتے ہیں اور جب گوادر کے ماہی گیر سمندر میں جاتے ہیں تو سمندر خالی ہوتا ہے۔

 بلوچستان میں 71فیصد افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 10 سے میں چھٹا آدمی غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے، ان میں بیشتر تعداد خواتین کی ہے۔ حکومتی دعوؤں کے باوجود بلوچستان میں غربت کی شرح کم نہیں ہوئی۔ اس غربت کی لکیر کے نیچے بلوچستان کی آبادی کی اکثریت کا زندگی گزارنے کا واضح مطلب ہے کہ سی پیک منصوبہ کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نافذ کردہ پالیسیاں کسی صورت ضروریات کو بہتر نہ کرسکی ہیں۔

تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ بلوچستان میں برسر اقتدار آنے والی حکومتیں عوام کی حقیقی نمایندہ نہیں ہیں، اس بناء پر غربت کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ بلوچستان کے موجودہ بجٹ میں بھی غربت کے خاتمے کو اہمیت نہیں دی گئی۔ ترقیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب صوبہ میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو مگر عوام کے حقیقی نمایندہ حکمرانی کا فریضہ انجام دے رہے ہوں۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ بلوچستان میں سیاسی بدامنی کم کرنے کے لیے ریاست عوام کے حقیقی نمایندوں سے مذاکرات کرے۔ عوام اور ریاست کے درمیان طویل فاصلے ایک خطرناک طوفان کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات