بجٹ 2025-26 اپنی منظوری کے آخری مراحل طے کر رہا ہے۔ بجٹ پر اتحادیوں کے درمیان مشاورت ہو رہی ہے۔ چند روز قبل پٹرول کی قیمت میں اضافہ بھی ہوگیا۔ بجٹ کا اعلان ہوتے ہی ہر شے کی قیمت بڑھنے لگی۔ مکان مالکان نے 10 فی صد اضافے کا تقاضا شروع کردیا، بس مالکان نے کرائے بڑھا دیے، حکومت 12 لاکھ سالانہ آمدن پر ٹیکس کا بوجھ لادے گی جو پہلے ہی 50 ہزارکرائے کی مد میں 30 ہزار روپے بجلی کے بلوں کو تھام کر ہزاروں روپے کے گیس کے بلوں اور پانی کے بلوں کو تھام کر یا دل تھام کر ڈگمگاتے لڑکھڑاتے قدموں سے اپنی قسمت کا شکوہ بیان کررہے ہیں۔
ایسے میں ان پنشن ہولڈرز پرکیا گزر رہی ہے، جسے اپنا دل چیرکر اس بات کا انتخاب کرنا ہے کہ دوا پوری خریدوں یا کم کر کے ایک عدد آم بھی خرید لوں تاکہ اہل خانہ کو ایک ایک ٹکڑا آم کا قیمتی نذرانہ پیش کروں۔ کروں تو کیا کروں؟ اب حکومت ہی کچھ کر لے مشاورت ہی کر لے، کم از کم 10 فی صد پنشن میں اضافہ کر دے، تاکہ بوڑھے لرزتے ہوئے جسم میں خوشی کی چند لہریں دوڑ جائیں۔
سولر پینلز پر 18 فی صد ٹیکس کم کرکے 10 فی صد کر دیا گیا ہے، جہاں تک جامعات کے لیے فنڈز بڑھانے کا تعلق ہے تو صرف ایک صوبے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ پورے ملک کی جامعات اور HEC کو دیے گئے فنڈز کو بڑھایا جائے۔ ریسرچ اور تحقیقی منصوبوں کو مزید ترقی دی جائے۔ جب ایک قوم اپنے تعلیمی اور اعلیٰ تعلیم پر ریسرچ کرنے والے اداروں کے فنڈز میں کمی لے کر آتی ہے تو وہ دراصل طالب علموں کو ذہن، دریافت، جستجو کی دنیا آباد کرنے سے روک دیتی ہے۔ تعلیم پر جی ڈی پی کا خرچ پاکستان میں سب سے کم ہے۔
یہاں تک کہ بھارت کے مقابلے میں تقریباً نصف ہے اور ایران کے بجٹ کا ایک تہائی ہے جب کہ عالمی بینک یہ کہتا ہے کہ پاکستان کو سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ، میتھس اور دیگر علوم میں تیزی سے سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں کیا ہم اپنے تعلیمی اداروں کو ایسا بجٹ دے سکتے ہیں جس سے کمرے اور کرسیاں اور امتحان کے ساتھ ذہن دریافت اور جستجو ریسرچ کی دنیا بھی آباد کر سکیں، آپ ملک کے مختلف شہروں میں یونیورسٹیزکی پتلی مالی حالت کی خبریں اکثر سنتے رہتے ہیں، کہیں اساتذہ کی کمی ہے کیونکہ فنڈز نہیں ہیں، چند اساتذہ پر لیکچرز کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔
تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہو رہی ہے۔ ریسرچ گرانٹس کہیں کم یا کہیں منجمد کیے جا رہے ہیں، اس طرح کی باتیں بتا رہی ہیں کہ ہم طلبا کو صرف امتحانی پرچوں تک محدود کر رہے ہیں۔ ان پر تحقیقی، سائنسی یا تکنیکی سرمایہ کاری نہیں کر رہے ہیں، لہٰذا اعلیٰ تعلیم پر ترقیاتی فنڈز کے ساتھ وفاقی اور صوبائی تعلیمی بجٹوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔
ہر سال 21 جون کو ’’ عالمی یوگا ڈے‘‘ منایا جاتا ہے، اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا آغاز 2015 سے ہوا۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ ’’ یوگا‘‘ ان کا تحفہ قدیم ہے لیکن نیپال، چین اور یہاں تک کہ ایرانی و ترک قدیم روایات بھی یوگا سے مشابہ طرز و فکر کی نشان دہی کرتی ہیں۔ یوگا کا اصل مطلب ہے ’’جوڑنا‘‘ یعنی سانس کو شعور سے، جسم کو روح سے اور انسان کو کائنات سے جوڑنا۔
یوگا کا تقریباً ہر آسن Posture جن سے بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے یعنی بغیر دوا کے۔ اس طرح اس کے اصول طب اسلامی کے قریب بھی دکھائی دیتے ہیں، جیسے ابن سینا اور امام رازی نے تنفس، سکون اور ذہنی طہارت کو ’’شفا کے اسباب ‘‘ قرار دیا ہے۔ اسی طرح یوگا میں سانس کی ترتیب، خاموشی پر زور دیا جاتا ہے۔ مشہور عالمی شہرت یافتہ ’’ یوگا‘‘ کے استاد ڈاکٹر بشیر شیخ یوگا مشقوں کے دوران خاموشی اور مراقبے کے ذریعے اللہ کی طرف دھیان دینے کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔
پاکستان جہاں مہنگائی کے سبب ذہنی دباؤ، ہر شخص اپنی کسی نہ کسی بیماری کا ذکر کرتا ہے، اس کے ساتھ مثبت خیالات کا حامل ہونا بھی ضروری ہے۔ ایسے میں اپنی صحت کے مسائل سے یوگا کے ذریعے نبردآزما ہو سکتے ہیں اور یوگا کے ماہرین اس فن کے اساتذہ یوگا کو اسلامی تعلیمات کی روشنی سے منور کر سکتے ہیں۔