امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پاکستان کے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے درمیان دو گھنٹے کی ملاقات کو عالمی منظر نامہ میں بہت اہم قراردیا جا رہا ہے۔
صدر ٹرمپ نے فیلڈ مارشل سے ملاقات کو اپنے لیے اعزاز قرار دیا۔ صدر ٹرمپ کے یہ الفاظ کافی ہیں یہ سمجھنے کے لیے ملاقات کیسے ماحول میں ہوئی اور کتنی کامیاب رہی۔ صاف بات ہے کہ اس ملاقات میں پاک امریکی تعلقات مفصل طریقے سے زیرِ بحث آئے۔ پاک امریکا تعلقات نے بہت سے نشیب و فراز اور اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ لیکن اس ملاقات نے تعلقات کو گرمجوشی میں بدل دیا ہے۔ سرد موسم ختم کر دیا ہے۔
پاک امریکا تعلقات کے علاوہ اس ملاقات میں ایران ، اسرائیل جنگ پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ اسی لیے اس ملاقات کے بعد امریکی صدر نے کہا کہ پاکستان شاید ایران کو بہتر سمجھتا ہے۔ یہ ملاقات ایسے موقع پر ہوئی ہے جب امریکا یہ فیصلہ کرنے پر غورکر رہا ہے کہ کیا امریکا کو اس جنگ میں شامل ہونا چاہیے کہ نہیں۔ اس ملاقات سے پہلے بھی ٹرمپ نے سیچوئشن روم میں ایک میٹنگ کی تھی اور اس ملاقات کے بعد بھی میٹنگ ہوئی ہے۔
اس لیے صدر ٹرمپ کا یہ کہنا کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ایران کو بہتر جانتے ہیں ۔ اس بات کا اشارہ ہے کہ آرمی چیف نے جنگ بندی اور جنگ کو روکنے کے بارے میں کوئی اہم بات کی ہے۔ پاکستان کے ایران کے ساتھ طویل بارڈر ہیں۔ ایران میں جنگ کے پاکستان پر اثرات ہوں گے۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں آرمی چیف نے اس ملاقات میں اس جنگ کو روکنے اور امریکا کو اس جنگ سے دور رکھنے کے حوالے سے ضرور بات کی ہوگی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسا ہو جائے گا۔ یقیناً آرمی چیف صرف اپنی رائے دے سکتے تھے۔فیصلہ تو امریکا نے کرنا ہے۔ اس لیے اگر کل امریکا اس جنگ میں شامل ہوتا تو یہ نہیں کہا جا سکے گا کہ آرمی چیف اور صدر ٹر مپ کی ملاقات ناکام ہو گئی۔ دونوں نے اپنی اپنی بات کی۔ جیسے پاکستان اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔ ایسے ہی امریکا بھی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔
صدر ٹرمپ نے اس ملاقات کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے برملا کہا کہ میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کا انڈیا کے ساتھ جنگ ختم کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں، امریکی صدر نے کہا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ ٹریڈ کرنے جا رہا ہے۔ پاکستان کے لیے ٹریڈ میں امریکا بہت اہم ہے۔ ہم سب سے زیادہ برآمدات امریکا کو کرتے ہیں۔اس ملاقات کا وقت تو ایک گھنٹے طے تھا لیکن یہ دو گھنٹے جاری رہی۔ صدر ٹرمپ نے آرمی چیف کی پاکستان سے لگن اور عزم کی تعریف کی۔ایسی تعریف کا مطلب ہے کہ دونوں شخصیات کی کیمسٹری بہترین طے ہو گئی ہے۔
آرمی چیف نے جاری دورہ امریکا کے دوران مزید اہم ملاقاتیں بھی کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کی گو کہ ابھی باقاعدہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ لیکن صاف بات ہے کہ اہم ملاقاتوں کے بعد ہی صدر ٹرمپ سے ملاقات ہوئی ہے۔ پہلے بات ہوئی ہے پھر ملاقات ہوئی ہے۔ امریکا کی طرف سے ملاقات میں صدر ٹرمپ کے ساتھ سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو اور سٹیو ویٹکوف، خصوصی نمایندہ برائے مشرق وسطیٰ بھی موجود تھے۔ جب کہ آرمی چیف کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک بھی موجود تھے۔ وفاقی وزیر داخلہ وائٹ ہاؤس میں تو موجود تھے لیکن ملاقات میں نہیں تھے۔
آرمی چیف نے پاکستان اور پاکستان کے عوام کی جانب سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی میں مثبت اور نتیجہ خیز کردار ادا کرنے پر صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کیا۔ اب یہ ایک دلچسپ بات ہے جب جب پاکستان امریکا اور صدر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتا ہے بھارت کوپریشانی ہوتی ہے اور مودی کی اپنے ملک میں پوزیشن خراب ہوتی ہے۔
اسی لیے اس ملاقات سے پہلے بھارتی سیکریٹری خارجہ نے ایک طویل بیان میڈیا کے سامنے پڑھا۔ بظاہر تو یہ بیان صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کے حوالے سے تھا۔ لیکن اس میں ٹرمپ کے سیز فائر کروانے کے تاثر کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ تا ہم صدر ٹرمپ نے اس ملاقات سے پہلے پھر کہا کہ انھوں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر کروایا۔ اور اس ملاقات کے بعد بھی یہی کہا۔ بلکہ انھوں نے سیز فائر کرنے پر آرمی چیف کا بھی شکریہ ادا کیا۔
اس ملاقات کی تفصیلات کے مطابق صدر ٹرمپ نے پاکستان اور امریکا کے درمیان انسداد دہشت گردی کی مد میں جاری تعاون اور خطے میں پاکستان کی قیام امن کی کوششوں کو سراہا۔ یہاں یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ صدر ٹرمپ نے ایک اہم دہشت گرد پکڑ کر امریکا کے حوالے کرنے پر پاکستان کا شکریہ بھی اد اکیا تھا۔ اسی لیے اس ملاقات میں بھی امریکا اور پاکستان کے درمیان انسداد دہشت گردی میں تعاون کو جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
آرمی چیف کی وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات تاریخ میں پہلی دفعہ ہوئی ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کے کسی بھی آرمی چیف کو کسی بھی امریکی صدر کی جانب سے ملاقات کی دعوت نہیں دی گئی۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ آرمی چیف کو وائٹ ہاؤس مدعو کر کے اس قدر عزت دی گئی ہے۔ جن آرمی چیف نے اقتدار سنبھال لیا تھا انھیں تو وائٹ ہاؤس ملاقات کے لیے بلایا گیا، کیونکہ وہ سربراہ مملکت بن گئے تھے۔
اس میں ضیاء الحق ، ایوب خان اور مشرف شامل ہیں۔ لیکن جو صرف آرمی چیف رہے انھیں کبھی نہیں بلایا گیا۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ آرمی چیف اور امریکی صدر کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ لیکن یہ ملاقات ون آن ون نہیں تھیں۔ جنرل کیانی امریکی صدر کو ملے لیکن وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کے ساتھ وفد میں شامل تھے۔ لیکن یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ امریکی صدر نے پاکستان کے آرمی چیف کو ون آن ون ملاقات کے لیے بلایا ہے۔ یقیناً اس ملاقات کے دور رس نتائج ہونگے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔
ایسی خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان منرل کی ڈیل بھی ہونے جا رہی ہے۔ پاکستان کے پاس ایک ٹریلین ڈالر کے منرل ہیں۔ اور امریکا ان منرل کو نکالنے کے لیے سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔ اس میں پاکستان کا بھی مفاد ہے۔ اس لیے اس ملاقات کے بہت سے پہلو ہیں۔ جنھیں نظر انداذ نہیں کیا جا سکتا۔