جب پاکستان، جسے ’’مہمان نواز عالم‘‘ کہنا چاہیے،میں مرد حق حضرت ضیاء الحق اور امریکا کے مہمانان خصوصی افغان مہاجر آنا شروع ہوگئے تو ان میں سکھ ’’خاندانی حکیم‘‘ بھی ٹڈی دل کی طرح آکر پورے صوبے خیبر پختون خوا میں پھیل گئے۔
یہ خاندانی حکیم اتنے زیادہ تھے کہ چھوٹے چھوٹے دیہات میں بھی جگہ جگہ خاندانی حکیم کے بورڈ لگ گئے، ان میں اکثر دکانوں میں ایک حکیم کی جگہ دو خاندانی حکیم ہوتے تھے، دونوں ایک جیسے ہوتے تھے، دونوں ہر لحاظ سے جڑواں لگتے تھے، ایک ہی رنگ اور قسم کی پگڑیاں ایک ہی رنگ اور ناپ کا لباس،جوتے،داڑھی، مونچھیں سب ایک ہی جیسے ہوتے تھے، گویا دونوں ایک دوسرے کے آئینے ہوتے تھے اکثر نام بھی دونوں کے ایک ہوتے تھے، دونوں پرمیت سنگھ،اجیت سنگھ،من جیت سنگھ یا دل جیت من جیت سنگھ ہوتے تھے۔مجھے طب سے دل چسپی ہے، اس لیے سوچا ان سے آئیوویدک طب کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کروں، اس لیے ان سے تعلقات استوار کیے۔
پہلے دن جب میں گیا تو چاروں طرف الماریوں میں شیشے کے ایک جیسے جار دیکھے جن میں رنگ برنگے سفوف تھے۔پوچھا آپ آئیوویدک طب کرتے ہیں؟ وہ کیا ہوتا ہے جی۔ بڑے پرمیت نے پوچھا۔پوچھا آئیوویدک طریقہ علاج؟ ہم خاندانی حکیم ہیں جی۔اس بار چھوٹے پرمیت نے کہا جو نیچے زمین پر کچھ کوٹ رہا تھا۔عرض کیا وہ تو ٹھیک ہے آپ خاندانی حکیم ہیں لیکن طریقہ علاج تو آئیو ویدک ہوگا نا۔طریقہ ’’علاج کی ہوندا ہے؟بڑا پرمیت بولا میرا مطلب ہے۔کوئی ایلوپیتھک ، کوئی ہومیوپتھک، کوئی یونانی۔ہم یونانی شونانی نہیں جانتے، ہم خاندانی حکیم ہیں خاندانی تو ہیں لیکن طب کے کئی طریقے ہیں۔
وہ ہم نہیں جانتے طب شب۔ہم خاندانی حکیم ہیں۔کافی مغز کھپائی کے باوجود ہم کچھ بھی معلوم نہیں کرپائے کیونکہ ہمارے سوال کا جواب خاندانی حکیم ہوتا تھا۔اور ہماری سمجھ میں بھی آگیا کہ وہ کسی بھی طب شب اور طریقے شریکے کے بارے میں نہیں جانتے اور ان کے خاندان پشتہاپشت سے جو دوائیں اور نسخے مروج ہیں وہی چلارہے اور ان دواؤں کے نام بھی خاندانی ہیں۔مثلاً ایک مرتبہ جب بیٹھے تھے بڑے پرمیت نے چھوٹے پرمیت سے پوچھا۔پاجی آکاش گھنگرو کیا ختم ہوگیا ہے۔
چھوٹے نے کہا ہاں جی۔میں نے پوچھا یہ آکاش گھنگرو کیا ہوتا ہے بڑا پرمیت بولا۔یہ بکائیں کے پیڑ میں جو دانے ہوتے ہیں وہ ہوتے ہیں ہاضمے شازمے کے لیے ہمارا خاندانی نسخہ ہے۔وہ کوئی چھ سات مہینے وہاں رہے، میں روزانہ ان سے ملتا بات چیت کرتا تھا اور یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ وہ خاندانی حکیم ہیں اور وہی نسخے استعمال کررہے ہیں جو ان کے خاندان میں کئی پیڑیوں سے مروج ہیں۔
صرف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
یہ خاندانی سلسلہ تو ہمارے ہاں بھی رائج ہے لیکن وہاں ’’سرداروں‘‘میں’’ خاندانی حکیم‘‘ ہوتے ہیں اور یہاں’’سرکاروں‘‘ میں ’’خاندانی لیڈر‘‘ ہوتے ہیں بلکہ اگر ان کو جمہوری خاندان کہا جائے تو بہتر ہوگا بطرز حکیمی خاندان۔جو دن رات جمہوریت جمہوریت الاپتے ہیں بلکہ جمہوریت ان کا تکیہ کلام بن گیا۔لیکن اپنے گھروں کے دروازوں پر سخت پہرے لگائے ہوتے ہیں کہ سب کچھ اندر آئے کتے بلیاں، مرغا مرغیاں، چیل کوے لیکن جمہوریت کو قریب بھی پٹخنے نہ دیا جائے کہ یہاں صرف ابن ابن ابن کا سلسلہ چل رہا ہے۔
قائد عوام فخر ایشیا کے خاندان کی بھی جمہوریت کی چوتھی پشت چل رہی ہے، اے این پی کی بھی ماشااللہ چوتھی پشت آن ائیر ہوگئی ہے، مولانا کی پارٹی میں بھی لیکن یہاں مولانا خود ہی کئی پشتوں کے برابر ہیں۔اور مسلم لیگ تو ہے ہی مدرخاندانی پارٹی، گجرات میں ابھی صرف تین پشت ہوئے ہیں اور شریف خاندان میں تیسری پشت آن ائیر ہوچکی ہے، بانی تو ابھی باقی ہے یعنی
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا؟
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟
لیکن ان کی پشتیں بھی برطانیہ میں تیار ہورہی ہیں، بانی ابھی اس خاندان کی بنیاد کے لیے پس منظر تیار کررہے ہیں۔ایسے میں بخدا اپنے شیخ رشید کے لیے دل بہت کڑھتا ہے اور قبرستانوں کا مشہور شعر ذہن میں آجاتا ہے
’’حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے‘‘
اور آج کل تو ان پر بہت ترس آتا ہے کہ ان کے بیانات کو بھی وہ مقام نہیں مل رہا ہے جو ملنا چاہیے اور جن کے لیے وہ چاردانگ عالم میں مشہور ہیں کیونکہ جس پارٹی سے انھوں نے امیدیں وابستہ کی تھیں وہاں’’بیانات‘‘ کے لیے خصوصی رکھے جانے لگے جو سنگل کالم سے سہ کالمی اور چارکالمی ہوگئے ہیں، ٹوکیو میں زلزلے کی طرح یا آج موسم ابرآلود رہے گا۔کی طرح ؎
رہتے تھے کبھی جن کے دل میں جان سے بھی پیاروں کی طرح
بیٹھے ہیں ان کے کوچے میں ہم آج گناہ گاروں کی طرح