امت مسلمہ کی پیٹھ میں اسرائیل نام کا جو خنجر گھونپا گیا تھا اس سے ملنے والا ناسور پھیلنا شروع ہوچکا ہے۔ پہلے فلسطین، فلسطین کے بعد شام،شام کے بعد لبنان، لبنان کے بعد اب ایران کی باری ہے۔ یہ صیہونی ریاست ایک ایک کرکے امت مسلمہ کے اہم ترین ممالک کو اپنی کھلی جارحیت، سفاکیت اور دہشت گردی کا شکار بنارہی ہے۔
میری ناقص عقل کے مطابق ایران ہماری باری گزار رہا ہے کیونکہ پاک بھارت جنگ در حقیقت اسرائیل نے پانی کی گہرائی ناپنے کے لیے خود چھلانگ لگانے کے بجائے بھارت کو اسرائیلی اور امریکی اسلحہ سے لیس کرکے میدان میں اتارا، مگر اللہ رب العزت کی نصرت اور تائید غیبی سے افواج پاکستان نے سپر پاور بننے کا خواب دیکھنے والے بھارت کو ایسا تاریخی اور دندان شکن جواب دیا کہ قیامت تک ہندو بنیئے اپنے زخم چاٹیں گے۔
پاکستان نے نہ صرف ہندوستان بلکہ اسرائیل و امریکا سمیت اقوام مغرب کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال کر ان کے خواب چکنا چور کر دیے ہیں مگر ہمیں اسرائیلی جنون کا ماضی اور حال کو دیکھتے ہوئے محال نہیں کہ ایران کے بعد کس کی باری ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھے اور خطرے سے لاپروا ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ متوقع اسرائیلی جارحیت کا خطرہ اب بھی ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے مگر اب پاکستان آسان نہیں بہت ہی مشکل اور انشاء اللہ ناممکن ہدف ہے۔ اگر “نیتن ہاہو” نے اپنے بغل بچے (مودی) کی طرح کوئی ایڈونچر کرنے کی کو شش کی تو پھر نہ صرف وہ بلکہ ان سب کا جد امجد امریکا بھی پچھتائے گا، انشاء اللہ۔
مگر ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ میں جارح بھارت کو سب سے زیادہ سپورٹ اسرائیل، امریکا اور یورپ کی حاصل تھی۔ آج ایران پر حملے کے لیے بھی صیہونی ریاست کو امریکا، بھارت اور یورپ کی حمایت حاصل ہے۔ تمام عالم کفر اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف متحد اور منظم ہو کر حملہ آور ہیں، ہم مسلمان قرآن نے جنھیں ملت واحدہ قرار دیا ہے مکمل طور پر بکھرے ہوئے ہیں۔
امریکا، برطانیہ اور یورپ کھل کر اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں اور اسے ہر ممکن مدد پہنچا رہے ہیں، فلسطینی تنہا لڑتے رہے اور لڑ رہے ہیں، عراق کی مدد کو کوئی اسلامی ملک نہیں آیا، لبنان کے خلاف صیہونی حملوں پر امت مسلمہ مذمتی بیانات سے آگے نہ بڑھ سکی۔ شام تن تنہا دہشتگردی کا مقابلہ کرتا رہا اور آج ایران بھی تنہا ہی کھڑا ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے ہی بعض اسلامی ممالک ایران کا ساتھ دینے کے بجائے اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ ان میں سر فہرست اردن ہے، جس کی فضائی حدود اسرائیل سے ایران پر برسائے جانے والے میزائلوں اور جنگی جہازوں کے لیے تو کھلی ہے لیکن ایران سے جوابی حملوں کے لیے چلائے گئے میزائلوں کے لیے نہ صرف بند بلکہ ایران سے اسرائیل کی جانب جانے والے میزائلوں کو اردن ہی میں گرایا جا رہا ہے، یہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری ہے۔
جغرافیائی لحاظ سے اسرائیل چاروں طرف سے مسلم ممالک میں گھرا ہوا ہے۔ ایران کے ساتھ اس کی براہ راست کوئی سرحد نہیں ملتی اور نہ ہی ایران تک پہنچنے کے لیے اسرائیل کے پاس اپنا کوئی سمندری راستہ ہے لہٰذا اسے ایران تک پہنچنے کے لیے لازمی طور پر کسی بھی اسلامی ملک کی فضائی حدود کی ضرورت تھی، ایران کے دارالحکومت تہران سے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کا فضائی راستہ کم و بیش ساڑھے اٹھارہ سو کلو میٹر ہے، دونوں ملکوں کی سرحد سے سرحد کے درمیان فاصلہ بھی کم و بیش 14 سو کلو میٹر ہے، اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل کا کوئی بھی جنگی جہاز اگر تل ابیب یا اسرائیلی سرحد سے اڑ کر ایران پر حملہ آور ہوتا ہے۔
اتنے فاصلے تک حملے کے بعد واپسی کے لیے اسرائیلی طیاروں کو لازمی طور پر ری فیولنگ کی ضرورت پیش آتی ہے، اگر وہ بھاری اسلحہ اور میزائلوں سے لیس ہوں تو ایسی صورت میں ری فیولنگ لازمی ہے۔ اس لیے اسرائیل نے ایران پر حملے کے لیے لازمی طور پر بیرونی مدد حاصل کی ہے۔امریکا نے بطور خاص اعلان کیا ہے کہ اُس نے حملے میں کسی قسم کی لاجسٹک یا ری فیولنگ معاونت فراہم نہیں کی۔ بظاہر ٹرمپ کی پالیسی بھی یہی دکھائی دیتی ہے۔
اس کے بعد ایک ہی امکان باقی رہ جاتا ہے، اسرائیلی طیارے واپسی پر کسی قریبی اسلامی ملک کی ایئربیس پر عارضی لینڈنگ کرکے ایندھن حاصل کرکے واپس لوٹے ہیں۔ آج کی جدید دنیا اور ٹیکنالوجی کے دور میں دوست چھپ سکتے ہیں نہ دشمن ، اس بات کا پتہ لگ جائے گا کہ کس اسلامی ملک نے اسرائیل کے ساتھ وفا کی پینگیں بڑھائیں۔ جس طرح اردن نے اسرائیل کی جانب داغے گئے ایرانی میزائلوں کو اپنی ہی ملک میں گرایا اس سے شک کا دائرہ اردن ہی کے گرد کھینچتا ہوا نظر آتا ہے۔ باقی حقائق جلد پوری دنیا کے سامنے آجائیں گے۔
اسرائیل نے ایران پر کم از کم 200 جہازوں کے ساتھ تین سو حملے کیے، تادم تحریرحملوں کا یہ سلسلہ جاری ہے، اسرائیلی جنگی جہازوں نے 100 سے زائد اہداف کو نشانہ بنایا۔ حملوں میں ایران کے جوہری پروگرام کے اہم مراکز، جوہری سائنسدان، اعلیٰ فوجی قیادت اور فضائی اڈے نشانہ بنائے گئے۔ ابتدائی صیہونی حملوں میںپوری عسکری قیادت اور اتنی بڑی تعداد میں جوہری سائنسدانوں کی شہادت ایران کے لیے بہت بڑے صدمے کا باعث تھی۔
مارے جانے والوں میں آرمی چیف جنرل محمد حسین باقری، اسلامی انقلاب فورس کے چیف جنرل حسین سلامی، کمانڈر میجر جنرل غلام علی راشد ،کمانڈر جنرل امیر موسوی، نیوی کے کمانڈر امیر شہرام، کمانڈر ائیر ڈیفنس علی رضا، ائیر فورس کمانڈر نصیر زادہ، کمانڈر کیومرث حیدری، کمانڈر غلام رضا سلمانی، کمانڈر علی حاجی زادہ، بریگیڈ جنرل اسماعیل قآنی کمانڈر محمد فعبفر،کمانڈر رضا تنگرسی شامل ہیں۔
ایران کے لیے اس کی پوری عسکری قیادت اور ایٹمی سائنسدانوں کی ہلاکت ناقابل تلافی نقصان اور بڑے صدمے کا باعث ضرور تھا لیکن ایران نے اسرائیل پر جوابی حملوں سے اپنی ثابت قدمی اور بلندحوصلے کو ثابت کردیا۔ ایران نے جوابی حملوں میں کافی نقصان پہنچا کر اسرائیل کا آئرن ڈوم سسٹم کافی حد تک مفلوج کر دیا ہے۔ ایران نے اسرائیل پر پہلے حملے میں 150 کے قریب میزائل داغے۔ حملوں میں اسرائیل کی عمارتیں تباہ ہوگئیں جب کہ ان حملوں کے نتیجے میں متعدد اسرائیلی شہری ہلاک اور 170 سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد اسرائیلی وزیر اعظم نے بنکرمیں چھپ کو جان بچائی۔
سوشل میڈیا پر جاری اسرائیلی تباہی کی تصاویر سے اہل فلسطین ہی نہیں روئے زمین پر بسنے والے ہر مسلمان اور انصاف پسند عوام کے دل کو راحت وسکون ملا،کیونکہ اس سے پہلے اس طرح کی تباہی کی تصاویر صرف فلسطین سے آرہی تھیں۔ تادم تحریر ایران نے اسرائیل پر چار حملے کر دیے تھے اور ابھی حملوں کا سلسلہ جاری ہے، ایران نے اپنے ائیر ڈیفنس سسٹم کو فعال کر کے اسرائیلی میزائلوں کو روکنا بھی شروع کر دیا ہے۔ اس وقت اسرائیل کو امریکا کی براہ راست مدد کی شدید ضرورت پڑ گئی ہے جس کے بغیر اسرائیل کو ناقابلِ تلافی نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ برطانیہ نے اسرائیل کی مدد کے لیے اپنے جنگی طیاروں کو تل ابیب بھیجنے کا اعلان کردیا ہے۔
ایران نے بھرپور جوابی حملوں سے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم و مغفور کی پیش گوئی درست ثابت کردی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا “اسرائیل کے خلاف اگر کوئی اسلامی ملک کھڑا ہوگا تو وہ ایران ہوگا”۔ ایران نے اسرائیل کے خلاف کھڑا ہو کر دکھا دیا۔ یہ بات خوش آیند ہے کہ سعودی عرب، قطر اور پاکستان سمیت کم و بیش تمام اسلامی ممالک نے اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور ایران کا ساتھ دینے کا اعلان کیا لیکن یہ وقت زبانی کلامی باتوں کا نہیں، عملی اقدامات کا ہے۔
جس طرح امریکا، برطانیہ، بھارت اور یورپ کھل کر اسرائیل کی حمایت کے لیے نکل آئے ہیں، برطانیہ اپنے جنگی جہاز بھیج رہا ہے، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم ممالک خاص طور پر سعودی عرب، پاکستان اور ترکی ایران کی ہر ممکن مدد کریںاور اس صیہونی ریاست اور اس کے سہولت کاروں کو سبق سکھائیں۔ امت مسلمہ کے پاس صیہونی ریاست کو سبق سکھانے کا یہ نادر موقع ہے۔ تابڑ توڑ ایرانی حملوں سے وہ پہلے ہی خوفزدہ ہیں عالم اسلام کی وحدت و اتحاد اس کے دل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ڈر پیدا کردے گا۔