یہ اصطلاح شاید آپ کو کچھ عجیب لگے۔لیکن ملاوٹ کا زمانہ ہے ایسی کوئی چیز کہیں بھی نہیں بچی ہے جو خالص ہو اور ملاوٹ سے بچی ہوئی ہو۔بلکہ زمانے کے ساتھ ساتھ ملاوٹ نے بھی بہت ترقی کرلی، اگلے زمانوں میں اکثر ملاوٹ ’’ٹو ان ون‘‘ ہوتی تھی یعنی کسی ایک چیز میں دوسری چیز ملائی جاتی تھی۔جیسے دودھ میں پانی یا پانی میں دودھ لیکن اب ایک چیز کے ساتھ بہت ساری چیزیں ملی ہوئی ہوتی ہیں مثلاً آپ کسی کو دیکھ کر آدمی سمجھیں گے جب کہ اس کے اندر بے شمار درندے، چرندے اور پرندے بھی چھپے ہوتے ہیں جسے وہ ’’مواقع‘‘ دیکھ کر خلق خدا پر چھوڑتا رہتا ہے۔
آپ کسی کو لیڈر یا رہنما سمجھیں گے اور اس کے اندر ڈاکو، لٹیرے، جیب کترے اور نہ جانے کیا کیا کچھ گھات لگائے بیٹھے ہوں گے۔آپ کسی کو افسر سمجھیں گے اور اس کے اندر لیڈر، تاجر اور دانا دانشور کھلبلارہے ہوں گے۔آپ کسی کو بہت ہی نیک پارسا اور دیندار سمجھتے ہوں اور اس کے اندر باقاعدہ دینی سوداگر،صنعت کار اور بلیک میلر دبکے ہوں گے۔
ہمارے اپنے کالم نگاروں میں پورا یونان سمایا ہوا ہوتا ہے جن کے پاس ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے اور قیمتی مشوروں کا ایک بہت بڑا زنبیل لیکن افسوس کہ آج کل لوگ بڑے’’نہ مانوں‘‘ہوگئے ہیں ورنہ اگر صرف اردو کالم نگاروں کے مشورے مانتے تو یہ دنیا پیراڈائز ہوچکی ہوتی، مطلب یہ کہ ملاوٹ کے اس زمانے میں جھوٹ یا سچ خالص کیسے ہوسکتا ہے۔بلکہ عرصہ ہوا ہم نے ان دونوں چچازادوں جھوٹ اور سچ کی لباس بدلی کی کہانی سنائی بھی تھی کہ دونوں روزگار کی تلاش میں اپنے گاؤں سے شہر کی طرف چل پڑے۔شہر کا نام ہم نہیں بتائیں گے۔کیوں کہ وہاں اب مذہب بھی آباد ہوگیا ہے، راستے میں ایک تالاب کو دیکھ کر جھوٹ نے سچ سے کہا، چلو اس تالاب میں نہاتے ہیں، دونوں نے اپنے کپڑے کنارے پر اتارے اور تالاب میں کود گئے، نہاتے تیرتے رہے، ڈبکیاں لگاتے رہے۔
تھوڑی دیر بعد سچ نے دیکھا کہ جھوٹ نظر نہیں آرہا ہے۔سوچا ڈبکی لگائی ہوگی لیکن کافی دیر تک نظر نہیں آیا تو سچ کو تشویش ہوئی کہ کہیں ڈوب نہ گیا ہو۔بیچارا سچ تھا اس لیے اسے معلوم نہیں تھا کہ جھوٹ ڈوبنے والوں میں سے نہیں ڈبونے والوں میں سے ہے۔کنارے پر نظر گئی تو یہ دیکھ کر دھک سا ہوگیا کہ جھوٹ کے کپڑے پڑے ہیں، اس کے اپنے کپڑے غائب ہیں، سمجھ گیا کہ جھوٹ ہاتھ کرگیا، مجبوری میں جھوٹ کے کپڑے پہن لیے اور چل پڑا تو ہر طرف پھٹکار ہونے لگی پتھر مارے جانے لگے۔
گالیاں اور کوسنے سنائی دینے لگے۔جب کہ جھوٹ نے سچ کے لباس میں شہر پہنچ کر انٹری دی تو زبردست پزیرائی ہوئی، لوگوں نے گلے لگایا ہار پہنائے پھول برسائے۔اور سب نے اپنایا،کئی باعزت روزگار پیش کیے گئے، آخر کار ترقی کرتے پورے ملک کا حکمران بن گیا، جب کہ بیچارا سچ جنگلوں، بیانوں میں چھپ کر رہتا تھا ذرا بھی باہر نکلتا تو پتھر برسنے لگتے ہیں۔بات اگر یہاں تک ہوتی تو پھر بھی ٹھیک تھا کہ کبھی نہ کبھی، ، کوئی نہ کوئی بدلے ہوئے لباس کے باوجود دونوں کو پہچان لیتا کیونکہ سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، کسی کسی کی بصارت اور بصیرت تیز بھی تو ہوتی ہے کہ
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز قدت رامی شناسم
لیکن اب تو بات جعل اور نقل تک آگئی ہے، دودھ میں نہ پانی ملایا جاتا نہ پانی میں دودھ۔بلکہ باقاعدہ اور براہ راست دودھ بنایا جاتا ہے اور بھی بہت ساری چیزیں بنائی جاتی ہیں یہاں تک کہ پروفیسر، علامے، ڈاکٹر، بیرسٹر اور معاون خصوصی تک بنائے جاتے ہیں جو اطلاعات اور بیانات بناتے ہیں بلکہ ’’پیدا‘‘ کرتے ہیں۔
عربی میں ’’جعل‘‘ کا لفظ ’’بنانے‘‘ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور’’پیدا‘‘ کرنے کے لیے ’’خلق‘‘ بولا جاتا ہے جیسے لکڑی، لوہا، پتھر، پانی، اوزار، مکان اور مشروبات بنائے جاتے ہیں یا جیسے گندم اور گنا پیدا ہوتے ہیں لیکن ان سے آٹا سوجی میدہ اور آگے بہت سی چیزیں بنائی جاتی ہیں، گندم سے چینی اور چینی سے آگے بے شمار مصنوعات بنائی جاتی ہیں۔آدمی بھی’’پیدا‘‘ ہوتے ہیں لیکن آگے امیر غریب، عالم جاہل، لیڈر، وزیر اور مشیر وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔ دودھ بنانے کا تو میں نے کہہ دیا ہے سنا ہے چین والوں نے انڈے بھی’’بنا‘‘ لیے ہیں ممکن ہے کہ کچھ عرصے کے بعد ان سے چوزے بھی نکالیں بلکہ چوزے اور مرغا مرغی بھی بنالیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
اور یہ جو ربوٹوں کا سلسلہ ہے نہ جانے کہاں جاکر رکے گا اور ہاں مصنوعی ذہانت؟۔ویسے پاکستان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں وزیر، مشیر اور معاون تو بنانے لگا ہے۔آگے آْگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔اور یہ لوگ جو بیانات سے لوگوں کو بناتے ہیں وہ بھی تو بنانا ہے جو تقریباً پیدا کرنے کے برابر ہے، اسے اگلے زمانوں میں ’’مایاوی‘‘ کہا جاتا تھا۔جو چیز سامنے ہوتی وہ ہوتی ہی نہیں تھی۔
اس موقع پر مجھے اپنے گاؤں کا ایک دیوانہ یاد آجاتا ہے جو ہوا میں بہت کچھ دیکھ کر لوگوں کو بھی دکھانے کی کوشش کرتا تھا۔ایک دن میرے پاس آکر بولا، اپنے بھائی کو سمجھا دو کہ مجھ سے باز آجائے ورنہ ایک دن بم سے اڑاکر رکھ دوں یہ دیکھو یہ بم۔ماروں گا تو چیتھڑے اڑاکر رکھ دوں گا۔کیا کیا ہے اس نے؟میں نے پوچھا۔بولا رات میری دونوں ٹانگیں کاٹ کر لے گیا ہے، کہدو واپس کرے ورنہ۔اس نے بم دکھایا۔میں نے کہا ٹانگیں تو تمہاری یہ موجود ہیں بولا یہ تو میرے بھائی کی ہیں۔