پشاور جو کبھی ’’پھولوں کا شہر‘‘ ہوا کرتا تھا۔ دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک، یہ شہر وسطی ایشیائی ممالک اور غیر منقسم ہندوستان کے درمیان ہمیشہ ایک اہم مقام رہا ہے۔
پشاور کو پشاپور ‘ پشکاپور‘ پولو شاہ ‘ روہستان،کوہستان اور اس پورے صوبے کو ایک زمانے میں باگر ام بھی کہا جاتا رہا ہے۔
شاعر انسانیت رحمان بابا اپنے ایک شعر میں اپنی شاعری کی مقبولیت کے بارے میں کہتے ہیں
ہم نغمے کاندی ہم رقص کا ہم خاندی
د رحمان پہ شعر ترکے د باگرام
(رحمان کے شعر پر باگرام کی دوشیزائیں نغمے بھی گاتی ہیں اور رقص بھی کیا کرتی ہیں)
رحمان بابا کے علاوہ دیگر شعراء نے بھی اسے باگرام کے نام سے یاد کیا ہے۔
بعض مورخین کے مطابق پشاور کا نام ’پیشہ آور‘ یعنی دست کاروں اور پیشہ وروں کے شہر کی نسبت سے رائج ہوا۔ دیگر اہم اور بڑے شہروں کی طرح پشاور کے ارد گرد بھی دیوار تعمیر کی گئی تھی۔ یہ دیوار دشمن سے محفوظ بنانے کے لئے بنائی جاتی تھی۔ پشاور شہر اشوکا ‘ کنشکا ‘ چندرا گپتا‘ویدوں‘رامائن‘مہابھارت کے عہد سے لے کر مغلوں‘سکھوں اور انگریزوں کے دور تک چار دیواری میں رہا۔ ماہرین تعمیرات کا کہنا ہے کہ پشاور شہر کے گرد دیوار ابتداء میں گارے اور مٹی سے بنائی گئی تھی، بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ساخت میں تبدیلی آتی گئی۔
ابتداء ہی سے فصیل شہر اپنی بنیاد سے تقریبا دس فٹ اٹھتی تھی اور مخروطی شکل میں تقریبا اٹھائیس فٹ اوپر جا کر اس کی چوڑائی چار فٹ رہ جاتی تھی۔ شہر دیوار کے حصار میں آباد تھا۔ دیوار میں مختلف مقامات پر سولہ دروازے تھے،ان دروازوں میںآسامائی دروازہ ‘ کچہری دروازہ ‘ ریتی دروازہ ‘ نواں دروازہ ( رامپورہ گیٹ ) رامداس بازار ‘ ڈبگری دروازہ ‘ بیجوڑی دروازہ ‘ کابلی دروازہ ‘ کوہاٹی دروازہ ‘ سرکی دروازہ ‘ سرد چاہ دروازہ ‘بارزقاں دروازہ ‘ ہشت نگری دروازہ ‘ لاہوری دروازہ ‘ گنج دروازہ اور یکہ توت دروازہ شامل تھا۔ تقسیم ہند سے قبل پشاور میں ہندو ‘سکھ ‘مسلم ‘پارسی ایک ساتھ رہتے تھے۔
شہر کے بعض مقامات پر یہودی بھی رہائش پذیر تھے۔ اسی طرح فصیل شہر کے نزدیک زیادہ تر ہندؤوں کی آبادی تھی۔ سارے لوگ ایک خاندان کی طرح رہتے تھے۔ بھانہ ماڑی کے علاقے میں پختون رہا کرتے تھے۔ زیادہ تر پختون دیہاتوں اور قبائلی علاقوں کے کُھلے ماحول میں رہائش پذیر تھے۔
شہر کے اندر آمد و رفت کے لئے لوگ زیادہ تر تانگے اور سائیکل استعمال کرتے تھے۔ شہر کے چند ہی رئیسوں کے پاس چار گھوڑوں والے ذاتی تانگے تھے تانگوں کا بڑا سٹاپ خیبر بازار تھا وہ وہاں سے سواریاں لے کر صدر جایا کرتے تھے اس وقت یہ انتظام تھا کہ شہر کے ہر دروازے کے ساتھ پولیس چوکی اور چونگی ہوا کرتی تھی جس پر شہر میں داخل ہونے اور باہر جانے والوں کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا اور ان سے محصول چونگی بھی وصول کی جاتی تھی۔
زیادہ تر تانگے کابلی گیٹ ’جسے کسی زمانے میں ایڈورڈز گیٹ بھی کہا جاتا تھا‘ ، کے ذریعے پشاور شہر کے اندر جاتے تھے۔ اس وقت یہ قانون تھا کہ خالی تانگے شہر کے اندر نہیں چھوڑے جاتے، اس لئے تانگہ بان مفت میں لوگوں کو سوار کرکے کابلی تھانے کے سامنے سے گزر جاتے اور شہر میں داخل ہو کر سواریوں کو اتار لیتے۔ خیبر بازار سے لے کر صدر تک خالی چیٹل میدان تھا، جس پر صرف ایک ریلوے ٹریک تھا اور اس کے ساتھ ’کارنیوال‘ (میلہ) لگا کرتا تھا۔ اس زمانے میں نوجواں تھیٹر اور میلوں کے چکر میں یہاں آیا کرتے تھے۔
گاؤں میں دشمنیوں سے تنگ آنیوالے امراء ( خان ) کی زیادہ تعداد پشاور شہر کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر تھی جہاں پر ان کے حجرے ہوا کرتے تھے ہندوؤں کی زیادہ تعداد نانک پورہ ‘ چکہ گلی ‘ رام پورہ ‘ گنج پتی ‘ ڈبگری پتی ‘ کرسچین نگر ( بلال ٹاؤن ) میں رہائش پذیر تھی ہندو زیادہ تر سودی کاروبار سے وابستہ تھے البتہ پارسی اور یہودی کاروبار کرتے تھے، مسلمانوں کی کثیر تعداد مزدور پیشہ تھی بہت کم لوگ کاروبار سے وابستہ تھے۔
قصہ خوانی کے عقب میں ’ریڈ لائیٹ ایریا‘ ہوا کرتا تھا جسے بعد میں علاقے کی لوگوں کی شکایات پر یہاں سے ہٹا دیا گیا۔ شہر میں رہائش پذیر زیادہ تر خواتین ٹوپی برقعہ (شٹل کاک برقعہ) استعمال کیا کرتی تھی جب کہ یہودی خواتین کالے رنگ کا برقعہ استعمال کرتیں تھیں۔ شام کی اذان کے ساتھ ہی فصیل شہر کے دروازے بند ہو جایا کرتے تھے جس کے باعث بعض اوقات اس وقت کے نوجوان نالیوں کے ذریعے فصیل شہر سے باہر نکل جایا کرتے تھے۔ اس وقت فصیل شہر سے باہر پنج تیرتھ( موجودہ چچا یونس پارک ) میں شمشان گھاٹ تھا،جہاں پر نہانے کے کئی تالاب تھے اور بچے‘مرد وخواتین مختلف اوقات میں یہاں آکر نہایا کرتے تھے، بعد میں یہاں پر مچھلی فارم بنایا گیا۔
پشاور شہر میں اس وقت لوگوں کی زیادہ تعداد باچاخان کی قیادت میں چلنے والی خدائی خدمت گار تحریک سے وابستہ تھی۔ تقسیم سے کچھ عرصہ قبل بعض لوگ مسلم لیگی ہوگئے۔ گنج گیٹ کے باہر کا علاقہ نشتر آباد ایک پارسی آرکیٹکٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق1947ء میں پشاور شہر کی آبادی کم و بیش ایک لاکھ تھی، جس میں تقریبًا پچاس ہزار سے زائد ہندو و سکھ ہندوستان چلے گئے۔
شہر میں آہستہ آہستہ توسیع ہوتی رہی، ہندوؤں کی خالی جگہوں کو لینے کے لئے ہندوستان سے کافی لوگ آئے تھے لیکن وہ کچھ عرصہ ہی یہاں رہائش پذیر رہے اور بعد میں واپس ہندوستان یاپھر ملک کے دیگر حصوں میں چلے گئے جس کے بعد ہندوؤں کے خالی گھروں میں قبائلی علاقوں اور دیہات سے آنے والے لوگ رہائش پذیر ہوگئے اور انہوں نے نئی آبادیاں بھی بسانی شروع کردیں۔ ون یونٹ 1970 ء کے بعد روزگار کی خاطر مختلف علاقوں سے آنے والے افراد کی کثیر تعداد پشاور آنا شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ فصیل شہر گرنا شروع ہوگئی جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے
کون اس گھر کی دیکھ بھال کرے
روز اک چیز ٹوٹ جاتی ہے
قیام پاکستان کے بعد آبادی کے بڑھ جانے سے پشاور شہر چاروں طرف کچھ ایسا پھیلا کہ فصیل شہر اور ان کے دروازوں کے مقامات آج کے موجودہ پشاور کے عین وسط میں نظر آتے ہیں۔ آبادی کے بے تحاشہ بوجھ نے دروازوں اور فصیل شہر کی اہمیت کو بالکل ختم کردیا ہے۔ سیاسی مصلحتوں اور تاریخی دیوار کو ملحقہ گھروں کی نجی ملکیت میں دینے کے بعد فصیل شہر مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے۔
یہ الگ بات کہ ان تمام دروازوں کی نسبت سے پشاور شہر کے مختلف بازاروں میں بڑے بازار موجود ہیں لیکن اس تاریخی ورثے کی جانب ابھی تک کسی نے توجہ ہی نہیں دی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج پورے پشاور شہر میں ان تاریخی سولہ دروازوں میں صرف چند دروازے رہ گئے ہیں جن میں سر آسیہ گیٹ ، سرد چاہ گیٹ ( ٹھنڈا کھوئی ) اور کابلی گیٹ شامل ہیں، جب کہ بقایا تیرہ دروازے مکمل طور زمانے کے تغیر کا شکار ہو گئے ہیں۔ جی ٹی روڈ پر واقع فصیل شہر کے ایک حصہ کو قومی ورثہ قرار دیکر اس پر رنگ و روغن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ تعمیرات پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے لیکن فصیل شہر کے لاہوری گیٹ ‘کوہاٹی گیٹ اور ڈبگری دروازہ تک کی دیوار اب بھی کہیں کہیں موجود ہے جس کے باہر ایک روڈ پشاور شہر کے گرد گھومتی ہے۔
قدیم دیوار کے ان حصوں کے ساتھ بوسیدہ اور پرانی عمارتیں بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں جن میں زیادہ تر گھروں کی چھتیں پرانے طرز کی ہیں جو لکڑی سے بنائی گئی ہیں جو کہ فصیل شہر کی وجہ سے موجودہ دور میں بھی قائم و دائم ہیں، افسوس ناک امر یہ ہے کہ فصیل شہر کو ختم کرنے میں نہ صرف پشاور شہر کے شہریوں نے بڑا کردار ادا کیا ہے بل کہ اس میں حکومتی اداروں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ فصیل شہر کے نزدیک رہائشی لوگوں نے کمرشل ازم کے اس دور میں اپنے گھروں کے دروازے مین روڈ پر نکالنے کے لئے فصیل میں نئے دروازے نکال دیے ہیں اور دکانیں بھی قائم کردی ہیں جس کے باعث یہ دیوار ختم ہو کر رہ گئی ہے۔
جب کہ دوسری طرف محکمہ اوقاف نے بھی شہر کے بعض مقامات پر نئی مارکیٹیں بنانے کے لئے فصیل شہر کو مکمل طور پر گرا دیا ہے جس پر کچھ عرصہ قبل شہریوں نے محکمہ اوقاف کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا۔ تاہم فصیل شہر کے گرانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس تاریخی ورثے کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ رکھنے کے کوئی اقدامات نہیں کئے جا رہے اور اس شہر پناہ کا تصور اب محض پرانی صرف تصاویر کی حد تک رہ گیا ہے۔
پشاور شہر کے گرد قائم فصیل شہر میں قائم سولہ دروازوں میں اس وقت صرف دو دروازے سر آسیہ گیٹ اور سرد چاہ گیٹ موجود ہیں جبکہ باقی تمام دروازے مکمل طور نیست و نابود ہو چکے ہیں۔ ان دروازوں کے اوپر اکیس چھوٹے چھوٹے محراب بنائے گئے ہیں جب کہ دونوں سائیڈ پر دوبڑے محراب ہیں۔ شکست و ریخت کا شکار یہ دروازے اس وقت پرانے پشاور شہر کے اندر رہائش پذیر لوگوں کے لئے مین روڈ پر آنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ ان دروازوں کی حفاظت اور انہیں شکست و ریخت سے بچاؤ کے لئے محکمہ اوقاف سمیت کسی بھی ادارے نے کوئی قدم نہیں اٹھایا ۔
ایک زمانے تک اس شہر کو پھولوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا اور صرف پھولوں کا شہر نہیں بلکہ اس کے ارد گرد ایک بہت بڑاگھنا جنگل بھی تھا جس میں مختلف جنگلی جانور بھی موجود ہوا کرتے تھے۔ اس بات کی گواہی مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر اپنی خود نوشت’’تزک بابری‘‘ میں دیتے ہیں کہ یہاں ہم گینڈوں کا شکار کیا کرتے تھے۔تاریخ کی کتابوں میں تو اسے پھولوں کا شہر کہا گیا اسی نام سے مشہور رہا مگر اتنا لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود،کئی مرکزی اور صوبائی حکومتیں آئیں،مقامی حکومتیں گزریں۔لیکن افسوس کہ وہ پھولوں کا شہر صوبائی دارالحکومت روز بروز ویران ہوتا جارہا ہے۔
اس کی تاریخی دروازوں کیساتھ کیسا کیسا سلوک کیا گیا۔اس شہر کی تاریخی عمارتوں،سینماوں کو بلندو بالا نجی پلازوں میں تبدیل کردیا گیا۔یہاں صفائی ستھرائی،نکاسی آْب،بجلی،گیس اور یہاں کے قدیم تفریحی مقامات اور پارکوں کی حالت بھی انتہائی ناگفتہ بہہ ہے۔ آج اگراس شہر کو گندگی کا ڈھیر کا نام دیا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔اسی پشاور سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر،کالم نویس اور دانشور جوہرمیر نے موجودہ پشاور کی عکاسی اور ترجمانی اپنے اس شعر میں بڑے خوبصورت انداز میں کی ہے
یہ شہر گل فروشاں تھا، چمن تھا
بکھر کر پتا پتا ہوگیا ہے