36 C
Lahore
Monday, June 16, 2025
ہومغزہ لہو لہوپاک افغان سفارتی تعلقات میں نئے امکانات

پاک افغان سفارتی تعلقات میں نئے امکانات


پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات میں جو بداعتمادی،تناؤ،ٹکراو اور الزام تراشیوں کا جو ماحول تھا، اس میں اب دونوں اطراف سے سفارتی محاذ پر بہتری کے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔یہ نئے مثبت امکانات دونوں ممالک سمیت خطہ میں موجود کشیدگی کے خاتمہ یا بہتر تعلقات کی بحالی میں خاص اہمیت رکھتے ہیں ۔

حالیہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی کوششوں کے بعد یہ اتفاق رائے کا سامنے آنا کہ ہم دونوں ممالک سفارتی تعلقات کی بنیاد پر درپیش مسائل پر بات چیت اور سیاسی حل نکالنے کی کوشش کریں گے، اہم پیش رفت ہے۔کیونکہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کا ایک اہم راستہ ہماری اپنی داخلی سیاسی، معاشی اور سیکیورٹی یا دہشت گردی کے خاتمہ کے استحکام سے جڑا ہوا ہے۔

یہ اعلان یا بڑی پیش رفت پچھلے دنوں بیجنگ میں چین ، افغانستان اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی سطح پر ہونے والی ملاقات یا غیر رسمی سہہ فریقی اجلاس کے بعد کیا گیاجو ظاہر کرتا ہے کہ نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے موجود تعلقات میں خرابی ختم ہورہی ہے بلکہ اس کے خاتمے میں چین کا کردار بطور ثالثی کے بڑھ گیا ہے اور چین کی یہ خواہش کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے نئے امکانات پیدا ہوں،پاکستان کے لیے امید کا نیا پہلو ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے نئے امکانات حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے ماحول کے بعد سامنے آئے ہیں اور ایسے لگتا ہے کہ سفارتی محاذپر جو برتری پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں ملی ہے اس نے یقینی طور پر پاکستان کے لیے نئے مثبت امکانات کو پیدا کیا ہے۔

کیونکہ ایک عمومی سوچ دنیا اور خطہ کی سیاست میں یہ پیدا ہوگئی تھی کہ موجودہ حالات میں افغانستان میں موجود طالبان حکومت کا جھکاؤ بھارت پر بڑھ گیا ہے۔افغانستان کی بھارت پر بڑھتی ہوئی سیاسی پینگین یا ان کا بھارت کی طرف جھکاؤ خود پاکستان کے لیے خطہ کی سیاست میں نئے خطرات کو جنم دے رہا تھا۔پاکستان تواتر کے ساتھ اپنے اس موقف کو بار بار پیش کررہا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی کا پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے استعمال میں جہاں یقینا افغان طالبان حکومت کی حمایت موجود تھی، وہیں افغانستان اور ٹی ٹی پی کی سرپرستی میں بھارت کی ریاست کی سطح پر سرپرستی کے پہلو کو بھی کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

ان حالات میں اب اگر افغانستان نے سفارتی بنیادوں پر پاکستان سے تعلقات کو نئے سرے سے مثبت طور پر استوار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اسے پاکستان کی سفارتی سطح پر ایک بڑی کامیابی سمجھا جاسکتا ہے۔یقینا یہ جو کچھ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مثبت پیش رفت آگے بڑھی ہے اس پر بھارت کو یقینا تشویش ہوگی اور وہ ان بہتری کی کوششوں کو پاکستان اور افغانستان کے تناظر میں خراب اور بدمزگی پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔کیونکہ بھارت کو یقین تھا کہ افغان طالبان کا جھکاو کسی بھی صورت میں پاکستان کی حمایت کی صورت میںنہیں آئے گا اور وہ کھل کر بھارت کی حمایت کرے گا،لیکن ایسا نہیں ہوسکا جو یقینی طور پر بھارت کی اپنی سفارت کاری کے عمل کو کئی محاذوں پر چیلنج کرتا ہے۔

ایسے لگتا ہے کہ بیجنگ اجلاس نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان پہلے سے موجود تناؤ کو کم کیا ہے اور خاص طور پر اس میں چین کا اپنا صلح میں سہولت کاری کا کردار نہ صرف اہمیت رکھتا ہے بلکہ بڑھ گیا ہے۔

افغانستان کا پاکستان کی طرف دوبارہ جھکاؤ یا سفارت کی بنیاد پر عملا تعلقات کی بحالی میں سامنے آناچین کی مصالحت کے تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ایسے لگتا ہے کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں جو کچھ بھارت کے ساتھ ہوا ہے اس نے کابل میں موجود افغان طالبان میں نئی سوچ اور فکر کو جنم دیا ہے ۔ پاکستان افغان حکومت کی حمایت اور ٹی ٹی پی کی سرپرستی اور اس کھیل میں بھارت کے کردار پر بہت سے شواہد بھی پیش کیے مگر افغان حکومت وہ کچھ نہ کرسکی جس کی ہمیں توقع تھی۔اب بھی تعلقات کی بہتری کا راستہ یہی ہے کہ افغان حکومت ٹی ٹی پی کی سرپرستی بند کرے۔

پاکستان نے کئی بار افغان حکومت کی خواہش پر ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کا راستہ بھی اختیار کیا اور خود افغان طالبان کی یہ خواہش تھی کہ ہم ٹی ٹی پی سے بات چیت کا راستہ نکالیں،لیکن اس تناظر میں ہونے والی تمام بات چیت کی کوششوں کاٹی ٹی پی نے کوئی بھی مثبت جواب نہیں دیا اور پاکستان کے خلاف اپنی مخالفانہ اور دہشت گردی پر مبنی کاروائیوں کو جاری رکھا ہوا ہے۔ افغان حکومت بھارتی حکومت پر بہت انحصار کررہی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ بھارت کی معاشی طاقت کا فائدہ اٹھا کر وہ اپنے لیے نئے معاشی امکانات کو پیدا کرسکتی ہے۔لیکن اب ایسے لگ رہا ہے کہ کابل کی سوچ بدل رہی ہے اور ان کو احساس ہوگیا ہے کہ بھارت کی اہمیت اپنی جگہ مگر نئے حالات میں پاکستان کو نظرانداز کرنے کی پالیسی ان کے مفاد میں نہیں ہے۔

کابل میں ابھرنے والی نئی سوچ میں چین کی سفارت کاری کا بھی بڑا عمل دخل ہے، پاکستان اور افغانستان کے درمیان مثبت پیش رفت ہورہی ہے اس میں چین کا کردار اہم ہے اور جب تک اس سوچ کے ساتھ کھڑا ہے کہ پاکستان اور افغانستان بداعتمادی کے ماحول سے نکلیں تو ہمارے لیے افغانستان سے تعلقات کی بہتری میں کئی نئے اشارے یا نئے امکانات ہیں جن کو ہم بنیاد بنا کر سفارت کاری کے محاذ پر بھارت کے مقابلے میں اپنے کارڈ زیادہ بہتر طور پر کھیل سکتے ہیں۔

اب پاکستان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ چین کی مدد کے ساتھ افغان حکومت کے ساتھ تعلقات کی بہتری میں نئی جہتوں کو یا نئے امکانات کو تلاش کرے اور روائتی سوچ اور فکر سے باہر نکل کر کچھ غیر معمولی اقدمات کی طرف پیش رفت کرے ۔پاکستان کو خبردار رہنا ہوگا کہ بھارت اپنی پوری کوشش کرے گا کہ اسلام آباد اور کابل میں تعلقات کی بہتری کی ہر کوشش کو وہ ناکام بنائے ۔

بھارت افغانستان کی حکومت کی مدد سے پاکستان میں اپنی پراکسی جنگ کو بڑھانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان کو داخلی محاذ پر کمزور رکھا جاسکے۔اس لیے جہاں ہمیں ایک طرف سفارتی کوششوںسے افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے ہیں وہیں بھارت سے تعلقات کی بہتری کو ممکن بنائے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو ہمارے پاس متبادل پالیسی کے تحت بھارت کی پاکستان مخالف ایجنڈے کا روڈ میپ ہونا چاہیے تاکہ ہم خود کومحفوظ بناسکیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات