انسان کی عمر بھی ناتواں عمارت کی طرح ہوتی ہے، انسان کو پتا ہی نہیں چلتا کہ کب یہ عمارت بیٹھ جائے کچھ لوگ انڈوپاک میں شوبز کے بڑے نام تھے جو عمر کے آخری ایام کے بعد کوچ کرگئے۔
دلیپ کمار (یوسف خان) بڑے آرٹسٹ تھے وہ بھی پرستاروں کو چھوڑ کر چل دیے، ہمارے ہاں اداکار سدھیر، محمد علی، وحید مراد، منور ظریف، رنگیلا کوکیا ہم بھول سکتے ہیں؟ کیسے کیسے شہ سوار شوبزنس کو ویران کر کے چل دیے جو آج بھی دلوں میں مہمانوں کی طرح رہتے ہیں اور یہ دلی لگاؤ آج بھی انھیں یاد کرتا ہے۔
آج بھی بھارتی اداکار قادر خان شدت سے یاد آئے کہ وہ نیک سیرت انسان تھے، ان سے میری ملاقات 1991 میں دبئی اور شارجہ میں تفصیلی ہوئی تھی دبئی میں وہ ایک ہوٹل میں اور شارجہ میں اپنے ایک عزیز کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے پر خوبصورتی کا ایک جلال تھا، وہ دبئی میں ’’پاکستان‘‘ سینٹر میں ایک اسٹیج ڈرامہ ’’ بول رے بول‘‘ میں ایک خوب صورت کردار ادا کر رہے تھے چونکہ وہ مزاحیہ اداکاری کی ایک لائبریری تھے، اظہار قاضی کے توسط سے ہماری یہ ملاقات ہوئی تھی وہ ایک نجی کام کے سلسلے میں دبئی آئے ہوئے تھے اور ہمارے بہت اچھے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔
قادر خان مرحوم سے ہماری دوسری ملاقات تقریباً 2 گھنٹے کی تھی۔ قادر خان کے والد عبدالرحمن بہت مذہبی انسان تھے وہ قادر خان کی شوبزنس کی مصروفیات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے جب کہ قادر خان کی والدہ اقبال آپا کا تعلق بلوچستان کے شہر حب سے تھا جب وہ اسٹیج ڈرامہ ’’بول رے بول‘‘ کے سلسلے میں دبئی آئے تو عمرہ ادا کرتے ہوئے آئے تھے وہ بہت اعلیٰ مصنف بھی تھے اور تقریباً 280 سے زائد فلموں کے وہ ڈائریکٹر تھے۔
قادر خان نے بتایا کہ پیشے کے حوالے سے وہ ایک بہترین انجینئر تھے، بمبئی کی پھاٹک گلی میں ایک پروفیسر ندیم احمد رہا کرتے تھے وہ قادر خان سے بہت محبت کرتے تھے انھوں نے مجھے کہا کہ ’’ انجینئرنگ میں کیا تیر مار لو گے مصنف بن جاؤ عزت، شہرت اور دولت تمہارا استقبال کرے گی۔
قادر خان بتا رہے تھے کہ میری عمر اس وقت 27 سال ہوگی جب کہ ندیم صاحب زندگی کی 65 بہاریں دیکھ چکے تھے، انھوں نے یوسف خان (دلیپ کمار) کا ایک اسٹیج ڈرامہ ’’دیوی تو دیوی‘‘ کے مصنف بھی تھے۔ ڈرامے کی ہدایت کاری کشور برما نے دی تھی۔
یہ ڈرامہ دہلی کے شہر دریا گنج میں پیش کیا گیا ڈرامہ سپرہٹ ہوا مرکزی کردار دلیپ کمار نے کیا تھا جس میں اشونا دیوی ہیروئن تھیں جنھوں نے بعد میں پارسی مذہب اختیار کر لیا تھا اور ایک پارسی تاجر من واس سے شادی کرکے شوبز کو چھوڑ دیا تھا اس کے بعد میں نے دوسرا ڈرامہ ’’ تیری چاہت‘‘ لکھا، اس کا معاوضہ مجھے 150 روپے ملا جب کہ میری تنخواہ بحیثیت لیکچرر کے 25 روپے تھی.
قادر صاحب نے بتایا کہ میں نے ان کی شاگردی اختیار کر لی تھی اور انجینئرنگ چھوڑ کر مصنف بن گیا اور پھر زندگی کا ستارہ چمک گیا۔ ایک سوال کا جواب قادر خان نے دیتے ہوئے کہا کہ دلیپ کمار اور امیتابھ بچن بچپن میں جو شرافت میں نے ان دو افراد میں دیکھی وہ بہت کم نظر آتی ہے ایسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔
پاکستان کے فنکاروں کے حوالے سے انھوں نے بتایا تھا محمد علی، سلطان راہی، اظہار قاضی، ٹی وی آرٹسٹ روحی بانو، وحید مراد، ندیم مجھے بہت پسند ہیں، انھوں نے بہت احترام کے ساتھ ان کے نام لیے اظہار قاضی تو میرے بھائیوں کی طرح ہے جب کہ وحید مراد، محمد علی، ندیم تو بڑے فنکار ہیں۔
ان کے بارے میں کچھ کہنا بے کار ہے گلوکاری میں مہدی حسن اور مہ ناز کی بہت تعریف کرتے رہے اور ان دونوں سے میری ملاقات بھی ہوئی، خاص طور پر مہدی حسن تو اپنی مثال آپ ہیں ان کا یہ گیت مجھے ’’زندگی میں تو سبھی پیار کرتے ہیں‘‘ اور گلوں میں رنگ بھرے مذہب کے حوالے سے سلطان راہی کی بہت تعریف کی۔
تلاوت کے حوالے سے سلطان راہی کی ایک کیسٹ مجھے کسی دوست نے دی تھی۔ اس کیسٹ کو سننے کے بعد میں ان کا مداح ہو گیا۔ مذہب کے حوالے سے انھوں نے ہمیں بتایا، مانا کہ میں ایک اداکار ہوں مگر مجھے یہ اعزاز ہے کہ میں مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا، یہ میری والدہ کی تربیت ہے جب بخاری شریف کا تذکرہ ہوا تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔
جب میری ان سے ملاقات ہوئی تو وہ تقریباً 55 سال کے تھے اپنی پسندیدہ فلموں کے حوالے سے انھوں نے راقم کو بتایا ’’بیوی ہو تو ایسی، ہم ہیں کمال کے، باپ نمبری بیٹا دس نمبری بہت اچھی فلمیں تھیں، ان فلموں نے میری شہرت میں چار چاند لگا دیے مہدی حسن اور مہ ناز کے بارے میں انھوں نے بتایا تھا کہ مہدی حسن تو گائیکی کے حوالے سے بادشاہ تھے۔
مہدی حسن کی تو لتا جی بھی بہت بڑی فین ہیں مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مہدی بھائی گائیکی کی آخری سیڑھی تھے، غالباً 1985 کی بات ہے مہدی حسن اور رحمن کے مشترکہ دوست عزیز بھائی انڈیا کے بہت بڑے بزنس مین تھے۔ ان کے بیٹے جاوید خان کی شادی تھی انھوں نے مہدی بھائی کو بحیثیت دوست بلوایا تھا وہاں انھوں نے شادی کی تقریب میں یہ گیت سنایا تھا ’’زندگی میں تو سبھی پیار کیا کرتے ہیں‘‘ اس گیت کو میں نے بھی سنا اور ان کا دل سے پرستار ہو گیا۔
مہدی حسن پاکستان کا سرمایہ ہیں (اس وقت مہدی حسن حیات تھے) راقم نے ان سے پوچھا کہ ’’آپ بھارت میں کس سنگر کو پسند کرتے ہیں‘‘ جواب دیتے ہوئے کہا بھارت میں لتا جی اور پاکستان میں مہ ناز یہ بڑی سنگر ہیں اور دونوں سے میری ملاقات بہت اچھی رہی۔
مہناز سے میرا تعارف اظہار قاضی نے کروایا تھا۔’’ آپ کی اظہار قاضی سے کہاں ملاقات ہوئی‘‘ کا مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ ’’ وہ تو میرے دل میں رہتا ہے، بہت ہی پیارا بچہ ہے، اس سوال پرکہ ’’ آپ کون سی مذہبی شخصیت سے متاثر ہیں؟‘‘ لکھنو میں میاں احترام صاحب دہلی میں قدوس صاحب اور بمبئی میں الحاج میاں رفیق ان حضرات سے میں نے مذہب کے حوالے سے بہت کچھ سیکھا، جو آج میرے کام آ رہا ہے اور پاکستان میں مذہبی حوالے سے کس شخصیت سے متاثر ہیں کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا مولانا مودودی، احتشام الحق تھانوی سیاست میں مجھے ذوالفقار علی بھٹو بہت پسند تھے، پاکستانی فنکاروں میں محمد علی، وحید مراد، زیبا، نیر سلطانہ اپنی مثال آپ تھے جب کہ مزاحیہ فنکاروں میں منور ظریف اور لہری ان سے کئی ملاقاتیں بھی ہوئیں وہ سلجھی ہوئی کامیڈی کے بادشاہ ہیں۔
اپنی مصروفیات کے حوالے سے بتایا تھا کہ جب بھی وقت ملتا ہے بخاری شریف کا مطالعہ کرتا ہوں۔ عمر کے آخری ایام میں قادر خان نے بے شمار عمرے کیے اور حج بھی کیے۔ راقم کا مشاہدہ ہوا ان کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہ واقعی ان کا چہرہ بہت نورانی تھا اور وہ لگتے تھے- انھوں نے ایک جملہ برجستہ کہا کہ م۔ش۔خ! تم ابھی نوجوان ہو، نماز پڑھا کرو، جوانی کی عبادت شان دار فریضہ ہے،، رب ان کی مغفرت کرے۔(آمین)