37 C
Lahore
Friday, June 6, 2025
ہومغزہ لہو لہووسط ایشیائی ریاستیں، تجارتی تعلقات کی نئی راہیں

وسط ایشیائی ریاستیں، تجارتی تعلقات کی نئی راہیں


نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کے درمیان اہم ٹیلیفونک رابطہ ہوا، جس میں ازبکستان، پاکستان اور افغانستان کے درمیان ریلوے لائن فریم ورک کی جلد تکمیل پر اتفاق کیا گیا ہے۔

 بلاشبہ وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کے تجارتی تعلقات نئی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ وسطی ایشیا قدرتی وسائل سے مالا مال اور پاکستان کے لیے بے پناہ اقتصادی مواقعے کا حامل ہے۔ حالیہ اقدامات نہ صرف سفارتی تعلقات میں گرم جوشی لانے کا باعث بن رہے ہیں، بلکہ خطے میں معاشی اور تجارتی رابطوں کو بھی نئی سمت دے رہے ہیں۔

ازبکستان،افغانستان،پاکستان ریلوے منصوبے کا مقصد ازبکستان اور پاکستان کے درمیان براہ راست ریلوے کے ذریعے رابطہ بنانا ہے، جو افغانستان سے گزرے گا۔ اس منصوبے کا مقصد 573 کلومیٹر طویل ریل رابطہ قائم کرکے تجارت کو بڑھانا ہے جو تاشقند ، کابل اور پشاور کو جوڑے گا۔

منصوبے پر عمل درآمد سے پاکستان اور وسطی ایشیا کے مابین تجارتی تعلقات کو تقویت ملنے کی توقع ہے، جس کا مقصد ازبکستان اور پاکستان کے درمیان کارگوکی فراہمی کے اوقات کو تقریباً پانچ دن کی مسافت تک نمایاں طور پرکم کرنا ہے۔ یہ ریلوے روٹ افغانستان میں ترمذ، مزار شریف اور لوگر سے گزرے گا جب کہ پاکستان کے ضلع کرم میں کھرلاچی بارڈر کراسنگ تک جائے گا۔

یہ منصوبہ مسافروں اور مال برداری کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، اس مقصد کے لیے ریلوے علاقائی تجارت کو فروغ دینے اور علاقے میں مجموعی اقتصادی ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے۔ بلوچستان کے لینڈ روٹس جنوبی ایشیاء اور وسطی ایشیاء کو لنک کرنے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، ازبکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے لوگ بلوچستان میں سرمایہ کاری اورکاروبارکے موجود مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے آگے آرہے ہیں۔

بلوچستان سرمایہ کاری اور کاروباری مواقعوں کی سرزمین ہے جس سے ازبکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بلوچستان میں کانکنی، زراعت، صنعت و تجارت اورگلہ بانی سمیت مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری اور بزنس کے مواقعے موجود ہیں وسطی ایشیا قدرتی وسائل سے مالا مال اور پاکستان کے لیے بے پناہ اقتصادی مواقع کا حامل ہے۔

پاک بھارت کشیدگی سے سرخرو ہونے کے بعد حالیہ دنوں فیلڈ مارشل عاصم منیر سمیت اعلیٰ حکام کا ترکیہ، ایران، آذربائیجان اور تاجکستان کا سرکاری دورہ انتہائی اہم حیثیت اختیارکرگیا ہے۔ ایرانی صدر کے ساتھ ملاقات میں ایران نے خطے میں امن قائم کرنے کی غرض سے دو طرفہ تجارتی تعلقات اور سرمایہ کاری بڑھانے کا اعادہ کیا ہے۔

آذربائیجان کے شہر لاچین میں پاکستان، ترکیہ، اور آذربائیجان کے سہ فریقی اجلاس کا اعلامیہ گھٹن زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے جس میں تینوں ملکوں کے سربراہان نے باہمی تزویراتی تعاون کو مستحکم بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان کیا ہے کہ تینوں ممالک علاقائی سالمیت، خود مختاری اور انصاف پر یقین رکھتے ہیں۔

 پاکستان کو وسط ایشیا سے تجارت کا گیٹ وے کہا جاسکتا ہے ۔ پاکستان کا محل وقوع  ایسا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ آ کر ملتے ہیں جب کہ جنوب میں بحر ہند کا وسیع سمندر ہے جو چین اور مشرق بعید سے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ کے درمیان اہم تجارتی راستوں کی گزرگاہ ہے۔

بحر ہند کی سمندری گزرگاہوں سے توانائی سے مالا مال وسط ایشیائی ریاستوں تک جانے کے لیے کوئی سمندری ساحل اور بندرگاہ نہیں ہے، واحد زمینی راستہ ایران کے علاوہ پاکستان سے گزر کر جاتا ہے۔ پاکستان سے گزرنے والا یہ راستہ زیادہ تر میدانی اور ہموار ہونے کے باعث آئیڈیل راستہ ہے جب کہ ایران سے جانے والا راستہ زیادہ تر پہاڑی اور ناہموار ہے۔

یہ جغرافیائی حقیقت پاکستان کو وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے ایک دلکش کنجی بنا دیتی ہے۔ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک چین، ایران اور افغانستان کے علاوہ دیگر ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بالعموم اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ بالخصوص تجارتی و دفاعی اور عسکری شعبوں میں قابل ذکر تعاون بڑھا سکتے ہیں۔

آذربائیجان کے ساتھ دفاعی معاہدہ ہوچکا ہے۔ آذربائیجان نے 31 دسمبر 2027تک پاکستانی چاول پر عائد کردہ کسٹم ڈیوٹی کو استثنیٰ قرار دے رکھا ہے۔ یہ استثنیٰ پاکستان کے لیے بڑا ریلیف ہے، اگرچہ اس ٹیکس چھوٹ کے باوجود پاکستان کی چاول برآمدات آذربائیجان کی کل درآمدات کا محض 4 فیصد ہے۔

قازقستان کی معیشت اس خطے کی بڑی معیشت ہے جہاں 370 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری سامنے آئی ہے۔ قازقستان کے معدنی وسائل میں شامل کوئلہ، کرومائیٹ اور زنک کا ذخیرہ دنیا کا دوسرا بڑا ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔ قازقستان قدرتی گیس سے بھی مالا مال ہے۔ ایران سے ہم سستے داموں تیل، لوہا، اسٹیل، چمڑا، شیشہ، تازہ سبزیاں اور پھل درآمد جب کہ گندم اور چاول برآمد کر سکتے ہیں۔گندم اور چاول کی مصنوعات ہم ترکیہ کوبھی برآمد کرسکتے ہیں۔

جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے چوراہے پر پاکستان کا تزویراتی محل وقوع بلاشبہ اسے رابطے اور تجارتی نقل و حرکت کو آسان بنانے کے لیے اچھی پوزیشن رکھتا ہے، جو پاکستان اور خطے کے لیے اسٹرٹیجک اہمیت کے مرکز کے طور پر امکان پیش کرتا ہے۔

اس کے علاوہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا ایک اہم حصہ ہے، جس میں بنیادی ڈھانچے اور رابطوں میں اضافہ ہے جو وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت کو فروغ دے سکتا ہے۔ ظاہری طور پر یہ سب پاکستان اور خطے کے لیے قابل قدر اہمیت کے امکانات پیش کرتے ہیں۔اور یہ بالکل صحیح ہے، پاکستان اس بیانیے پر سرمایہ کاری کو ملک میں لانے کے لیے کام کر رہا ہے۔

 ایک اہم تجارتی اور ٹرانزٹ مرکز کے طور پر پاکستان کی تزویراتی حیثیت سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے تاکہ زمین بند (لینڈ لاک) وسطی ایشیائی ریاستوں کو عالمی منڈی سے جوڑا جا سکے۔ پاکستان کی جانب سے سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے اقتصادی سفارتکاری پر زور دینے کے ایک حصے کے طور پر تجارت، توانائی اور دفاعی تعلقات پر متعدد بار بات چیت ہوئی ہے۔

وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے قابل قدر اضافہ توانائی اور معدنی وسائل کی وافر مقدار ہے اور جن سے پاکستان توانائی کی کمی کا شکار ہے۔پاکستان، چین، کرغیز جمہوریہ اور قازقستان نے 9 مارچ 1995کو چہار فریقی ٹریفک اور ٹرانزٹ معاہدے (کیو ٹی ٹی اے) پر دستخط کیے۔

یہ چین، پاکستان، کرغزستان اور قازقستان کے درمیان ٹرانزٹ ٹریفک اور تجارت کو آسان بنانے کے لیے ایک ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ ہے۔ یہ وسطی ایشیا اور بحیرہ عرب میں پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے درمیان ایک موثر رابطہ نیٹ ورک فراہم کرتا ہے۔

چین نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور اس خطے کے ساتھ اس کی تجارت تقریباً 100 بلین امریکی ڈالر ہے۔ اس کے بعد ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت (تاپی) گیس پائپ لائن منصوبہ ہے۔ تاپی منصوبے کا مقصد ترکمانستان میں گلکنیش گیس فیلڈ سے قدرتی گیس افغانستان کے راستے پاکستان اور بھارت لانا ہے۔ تاپی منصوبہ حکومت پاکستان کے انرجی سیکیورٹی پلان کا حصہ ہے۔

پاکستان کی پوزیشن اپنے ہمسایہ ممالک افغانستان اور ایران کے ساتھ بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔ جہاں مغرب، چین اور بھارت افغانستان کے وسیع معدنی وسائل کی طرف نظر جمائے ہوئے ہیں، پاکستان کی رسائی صرف چند ملین ڈالر کے اجناس کی تجارت تک محدود ہے۔

ایران کے ساتھ، پاکستان،ایران گیس پائپ لائن جو بہت ضروری ہے، دہائیوں سے التوا کا شکار ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات کا آغاز ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے، جس سے پاکستان کو جنوبی خطے میں اپنی حیثیت مضبوط کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

پاکستان، ترکیہ اور آذربائیجان کے مابین سہ فریقی تزویراتی اتحاد کی بنیاد شنگھائی تعاون تنظیم نے فراہم کی تھی جس میں چین، قازقستان، کرغیزستان، روس، تاجکستان، بھارت، پاکستان، ایران، بیلاروس شامل ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم سی پیک کے منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کر کے پاکستان کے لیے اقتصادی راہداری کو ایران اور ترکیہ کے تیل اور گیس کی فراہمی، بجلی پیداوار اور ترسیل، تجارتی نقل و حمل، بندرگاہوں، اور جہاز رانی کے ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں۔

ایشیا کے دیگر ممالک جو پاکستان کی طرح بھارت کی جانب سے اشتعال انگیزی کا خطرہ محسوس کرسکتے ہیں۔ جیسے سری لنکا، بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال، میانمارکے ساتھ دوستانہ تعلقات کو استوار کریں۔ باہمی تعاون اور اشتراک کے امکانات کو فروغ دیں۔

 قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغزستان اور تاجکستان توانائی، زراعت اور معدنیات کے وسائل سے مالا مال ہیں اور پاکستان ان کے لیے ایک اہم تجارتی اور ٹرانزٹ مرکز کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ سی پیک اور ٹرانس افغان ریلوے جیسے منصوبے بہتر رابطوں اور تجارت میں سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔ وسطی ایشیا کے ساتھ مضبوط تجارتی تعلقات کو فروغ دے کر پاکستان اپنے اقتصادی چیلنجز پر قابو پا سکتا ہے، روایتی منڈیوں پر انحصار کم کر سکتا ہے اور ترقی کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات