35 C
Lahore
Sunday, June 1, 2025
ہومغزہ لہو لہومشاہدات - ایکسپریس اردو

مشاہدات – ایکسپریس اردو


’’مشاہدات‘‘ ہوش بلگرامی کی خودنوشت ہے جس میں مصنف نے ہندوستان کے بیش تر شہروں کی سیر کرائی ہے، خاص کر حیدرآباد دکن اور رام پور کا تذکرہ خاصی تفصیل سے کیا ہے۔

انھوں نے سقوط حیدر آباد اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا۔ ہوش صاحب نے بڑی بھرپور زندگی گزاری، یہ کتاب راشد اشرف نے شایع کی ہے جو اکثر و بیشتر اچھی اچھی کتابوں سے قارئین کو روشناس کراتے رہتے ہیں۔ میرا مقصد یہاں ’’ مشاہدات‘‘ پر تبصرہ کرنا نہیں ہے بلکہ کتاب کے چیدہ چیدہ صفحات سے قارئین کو روشناس کرانا ہے۔ پہلے یہ سطریں دیکھیے۔

 ’’ ماں باپ کے لاڈ پیار بچوں کے مستقبل کو تاریک بنا دیتے ہیں،کچھ میں بھی اس قسم کی عادتوں کا خوگر رہا ہوں، جو جیب خرچ ملتا اس سے چوگنا دوست احباب کی خاطر مدارات میں، رنگ رلیوں کی چاٹ میں خرچ ہو جاتا، طلب سے زیادہ ملتا رہا اور حوصلے سے زیادہ خرچ کرتا رہا اور اس پر غور نہ کر سکا کہ دولت لٹانے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ جائز ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہوتی ہے۔

یہ انسان کے قلب کو مطمئن رکھتی ہے، یہ عیبوں کو چھپاتی اور حاجتوں کو پورا کرتی ہے جس نے اس کی قدر نہ کی وہ رسوا ہو، جس نے اس کی حفاظت نہ کی وہ دنیا میں ناکام ہی نہیں خستہ وخراب ہوا۔‘‘

’’ بے اعتدالیاں وہ انسانی جرم ہے جو زندگی کو تباہ کر دیتی ہیں اور ناعاقبت اندیشیاں وہ گناہ ہے جسے خدا بھی معاف نہیں کر سکتا۔ فضول خرچی ایسی نہ کی جائے جو محتاج بنا دے اور بخل ایسا نہ ہو کہ دنیا لیئم کے لقب سے یاد کرے۔‘‘

ذکر ہو رہا ہے حیدرآباد دکن کا، یہاں ایک قوم بستی ہے جسے نوائت کہتے ہیں۔ ’’نوائتوں کے متعلق یہ بھی سنا تھا کہ ان کا دماغ سازشوں میں خوب کام کرتا ہے جس سے حیدرآباد میں نظام ثانی پناہ مانگتے تھے اور سپہ سالار جنگ بھی گھبراتے تھے۔ اس طبقے کی وجہ سے تمام مدراسیوں کی خوش حالی کی دعا مانگتے تھے تاکہ وہ اپنے وطن میں خوش رہیں اور حیدرآباد کا رخ نہ کریں۔ نوائتوں کے متعلق ایک قدیم کتاب ’’ کابوس نقرس صاحب القاموس‘‘ میں نوائتوں کے متعلق صفحہ 131 پر ڈاکٹر جی ہرکلائس کے حوالے سے یہ تحریر لکھی ہے جو نوائتوں کے متعلق ہے۔

’’اس گروہ کے لوگوں نے رسول خدا کے روضہ اقدس میں ایک سرنگ کھودنا شروع کی تاکہ جسد مبارک کو دور کے ملک لے جائیں، جب سرنگ پوری ہو چکی تو روضہ مطہرہ کے خدام کو خواب کے ذریعے اطلاع ہوگئی، انھوں نے دوسری صبح کو ان مجرمین کو شہر بدرکردیا۔ جہاں جاتے مارے پیٹے نکالے جاتے اور اپنے آپ کو ’’نوائت‘‘ یعنی نئے آنے والے کہلواتے تھے۔

آگرہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’1522 میں اس پر بابر قابض ہوا، ہمایوں کی تاج پوشی یہیں ہوئی، کوہ نور ہیرا یہیں ملا، شیرشاہ نے بھی یہاں حکومت کی۔ 1555 میں ہمایوں نے دوبارہ اس کو واپس لے لیا، 1615 میں جہانگیرکی تاج پوشی یہیں ہوئی، شاہ جہاں بھی تھوڑے عرصے یہاں رہا پھر شاہ جہاں آباد کی بنیاد ڈالی، مگر آخری عمر یہیں گزاری۔ وہ آگرہ جس کو اکبر آباد بھی کہتے ہیں، وہ آگرہ جہاں تاج محل کا شاہانی مقبرہ میاں بیوی کی سچی محبت کی قسم کھا رہا ہے اور دنیا کے تعمیری عجائبات میں اپنا شمار کرا رہا ہے۔

 جہاں صدیوں پہلے اکبرکا ہندو مسلم سنگم تھا، جہاں کے اکبری قلعے میں نماز بھی ہوتی تھی اور پوجا بھی، بیگمات بھی حرم سراؤں کی رونق بنی ہوتی تھیں اور رانیاں بھی، جس نے اکبری عہد کے انسانی برتاؤ سے اکبر آباد کو سکون آباد بنا دیا تھا، جہاں کے باغوں میں بڑی چہل پہل رہتی ہے، جس کے تاج محل کی چاندنی راتوں میں خوش فعلیاں ہوا کرتی ہیں جس کے قرب میں فتح پور سیکری ہے، جہاں حضرت سلیم چشتی کا مزار ہے، جن کی دعا سے جہانگیر پیدا ہوا۔ جہاں اکبر نے پچیسی اور چوسر کھیلنے کا ایک مربع میدان بنایا تھا جس میں گوٹوں کے بجائے حسین اور کمسن لڑکیاں چار رنگی لباس پہنے خانوں میں ادھر سے اُدھر پھدکتی پھرتی تھیں۔‘‘

’’ دہلی کی مختصر تاریخ جس کو زمانے کے انقلاب نے بہت کم سکون و اطمینان کی سانس لینے کا موقعہ دیا، میرؔ کی شاعرانہ زبان میں یہ وہ اجڑا دیار ہے جو مدتوں نہ صرف گہوارۂ علم و فن رہا ہے بلکہ اس کے بام و دَر صدیوں اسلامی تہذیب و تمدن کا مرکز بنے رہے ہیں۔ غرناطہ کی درس گاہیں بغداد کی علمی مجلسیں، غرناطہ اور قرطبہ کی علم و فن کی کوششیں دہلی میں بیدار ہوئیں جو اس وقت مدینۃ العلم بنا ہوا تھا، یہیں سے غالب اور ذوق کی شاعری کے چشمے ابلے اور یہیں کے آخری بادشاہ کا یہ اخلاقی درس بھی اب تک دنیا کو یاد ہے۔

ظفر آدمی اس کو نہ جانیے جو ہوکیسا ہی صاحب فہم و ذکا

جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا

حیدرآباد دکن کے مہاراجہ پرشاد کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’موحد ہونے کے سبب وہ ہر مذہب کا احترام کرتے تھے اور صوفیانہ مشرب رکھنے کی وجہ سے خواجہ اجمیری سے خاص عقیدت تھی، اسی عقیدت کا اثر تھا کہ آپ نے اپنے بچے کا نام خواجہ پرشاد رکھا جو ایک ہندو رانی کے بطن سے پیدا ہوا تھا، خواجہ کے آستانے پر کئی بار حاضر ہوئے، دیگیں پکوا کر بٹوائی تھیں، چھٹی رجب کو عرس بھی کیا کرتے تھے۔

 فیاضی ان کی سرشت میں تھی، داد و دہش ان کی فطرت تھی، جیبیں خالی کرنے کا شوق تھا، سوچتے رہتے تھے کہ کس کو کیا دوں اور دیتے بھی اس طرح تھے کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ انکار کے مفہوم سے ناآشنا تھے، مہاراجہ بہادر کی کئی رانیاں تھیں اورکئی بیگمات بھی تھیں۔ ہندو رانیوں کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے ہندو اور مسلمان بیگمات کے بطن سے پیدا ہونے والے بچے مسلمان ہوتے تھے اسی مناسبت سے ان کی شادیاں ہوتیں اور رشتے جوڑے جاتے۔‘‘

پاکستان بننے کے بعد کی صورت حال کو یوں بیان کرتے ہیں۔’’پاکستانی مسلمان خوش ہوں گے یا مذہبی مجنوں پاکستان بن جانے پر فخرکریں گے کہ تقسیم ہند نے ایک مسلمان ملک کا اضافہ کر دیا، مگر ہندی مسلمانوں کے سمجھ دار طبقے کے پاس تو پاکستان کی بھی وہی حیثیت ہے جو ترکی اور ایران کی ہے، مصر و افغانستان کی ہے، عراقیوں اور سعودیوں کی ہے۔ ان اسلامی ملکوں نے کب ہندی مسلمانوں کی کوئی عملی ہمدردی کی؟ کب ان کی برادرانہ شفقت سے بات پوچھی،کب کسی آڑے وقت میں کام آئے؟ پاکستانی مسلمان کسی وقت ہندی مسلمان ہی تھے مگر جغرافیے کی تبدیلی سے وہ پاکستانی ہوگئے، ہم ہندوستانی رہ گئے۔‘‘

اور یہاں ہوش بلگرامی کو داد دیے بغیر نہ رہ سکیں گے،’’مسلمانوں سے اپنا آبائی وطن چھوٹ رہا ہے اور جو 4 کروڑ مسلمان ہند انڈیا میں مر مر کے جینے کے لیے رہ گئے ہیں وہ اپنے مستقبل سے سہمے ہوئے ہیں اور کیوں نہ سہمیں جب کہ اس کی ابتدا ان کی زبان کی تبدیلی سے ہو رہی ہے۔ ان کو ملازمتیں ان کی مردم شماری کے لحاظ سے دی جانے والی ہیں اور سنا جا رہا ہے کہ ذبیحہ کا قانون بھی بننے والا ہے جس کی ابتدا یہ ہو، اس کی انتہا کیا ہوگی؟‘‘

دہلی کا تذکرہ یوں کرتے ہیں، آپ یقینا ہوش سے متفق ہوں گے۔

’’ نئی دہلی کی مغربی طرزکی عمارتیں انگریزوں ہی کی بنائی ہوئی ہیں، وسیع کشادہ سڑکیں انھی کی بنائی ہوئی ہیں، ریل گاڑیاں انھی کی دوڑائی ہوئی ہیں، ہوائی جہاز انھی کے اُڑائے ہوئے ہیں، ٹیلی فون کی سہولتیں ان کی ہی پیدا کی ہوئی ہیں، تارکے کھمبے انھی کے گاڑھے ہوئے ہیں، موٹریں انھی کے کارخانوں کی دوڑتی پھرتی ہیں، میزیں اور کرسیاں ’’صاحبیت‘‘ کے زمانے کی پیداوار ہیں، لوازمات زندگی تو سب برطانوی زمانے کے ہیں مگر چلتے پھرتے انسان سب ہندی النسل ہیں۔

اسی ڈگر پر آج تک حکومتیں چل رہی ہیں جو انگریزوں کی بنائی ہوئی ہیں، انھی کی زبان آزاد ہندوستان کی فضا پر چھائی ہوئی ہے۔ انھی کا قانون نافذ ہے اور انھی کا کاغذی سکہ چل رہا ہے۔‘‘



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات