34 C
Lahore
Sunday, May 25, 2025
ہومغزہ لہو لہوسندھ میں سیاسی بیداری - ایکسپریس اردو

سندھ میں سیاسی بیداری – ایکسپریس اردو


صوبہ سندھ میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں۔ ماضی میں جو بھی تحریکیں سندھ میں چلیں اور خاص کر ایم آر ڈی 1983 کی تحریک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان تحاریک کی قیادت سندھ کے وڈیروں نے کی تھی۔ اس بات میں کہیں کچھ صداقت بھی پائی جاتی ، ذوالفقارعلی بھٹوکی پھانسی کی وجہ سے سندھ کے عوام میں شدید غم و غصہ تھا اور وڈیرے اس بات پر مجبور تھے کہ وہ عوام سے کٹ کر رہ نہیں سکتے تھے۔

ایم آر ڈی کی تحریک دو ہفتے بھی نہ چل پائی تھی کہ سندھ کے وڈیرے جو جیلوں تک پہنچے، انھوں نے معافی نامے لکھ کر اپنی جانیں چھڑوائیں اور رہا ہوگئے۔ بعد میں یہ تحریک ان ہاتھوں میں آئی جن کا نظریہ اور سوچ بائیں بازو کا تھا جیسا کہ رسول بخش پلیجو اور جام ساقی وغیرہ۔ پیپلز پارٹی کے ورکر وڈیروں کی دسترس کے بغیر اس تحریک سے جڑے رہے۔

سندھ میں اس وقت جس تحریک نے جنم لیا ہے، وہ وڈیروں کی زیر قیادت نہیں ہے۔ یہ تحریک سندھ سے کارپوریٹ فارمنگ اور چولستان میں چھ نہروں کے خلاف ابھری ہے۔ اس تحریک کا آغاز وکلاء، مڈل کلاس اور سیاسی پارٹیوں نے کیا ہے۔ پچھتر برس سے ایسے لوگ وڈیروں کے زیرِ اثر رہے ہیں۔

کوئی بھی سیاسی پارٹی وڈیروں کے بغیر جیت نہیں پائی۔ کسی حد تک یہ جمود ذوالفقار علی بھٹوکی سحرانگیز شخصیت نے توڑا لیکن بہرحال پیپلز پارٹی وڈیروں ہی کی اکثریتی پارٹی تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ کل تک پارٹیوں کی مجبوری وڈیرے تھے اور ذوالفقار علی بھٹو دور تک ان وڈیروں کی مجبوری پیپلز پارٹی تھی۔ انتخابات میں دونوں اطرافی پارٹیوں کے امیدوار وڈیرے ہی ہوتے تھے لیکن جیت اس کی ہوتی تھی جس کو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ملتا تھا۔ تین چھوٹے صوبوں سے صرف سندھ میں قوم پرستوں کو ووٹ نہیں ملتا تھا۔ قوم پرست لیڈر ہوں یا پھر مڈل کلاس ان پچھتر سالوں میں ان میں سے ایک بھی صوبائی یا پھر قومی اسمبلی کی سیٹ پر ووٹ لے کر نہیں پہنچ سکا۔

سندھ کا مجموعی بیانیہ یا پھر متفقہ تاریخ کی تشریح سندھ کے عظیم شاعر شاہ عبد اللطیف کی شاعری کے گرد گھومتی رہی جس پر سب متفق تھے، لیکن سندھ کو قوم پرستوں کا مزاج شیخ ایازکی شاعری کے گرد گھومتا رہا، جو مزاحمت کے لب ولہجے میں شاعری کرتے تھے۔ وہ اپنی مزاحمت کو سترھویں صدی کے شاہ عنایت صوفی سے جوڑتے تھے اور پندرھویں صدی کے مخدوم بلاول کے ساتھ جوڑتے تھے جس کو ارغون اور ترخان حملہ آوروں نے ان کی صوفی اقدارکو نشانہ بناتے ہوئے چکی میں پیس دیا تھا۔

حالیہ تبدیلی کے باعث سندھ کے عوام وڈیروں کی دسترس سے باہر نکل آئے ہیں۔ یہ کام قوم پرست نہ کر پائے لیکن سندھی وکلاء نے کر دکھایا۔ ببرلوکا دھرنا وکلاء دھرنا نہیں تھا بلکہ یہ عوام کا دھرنا تھا۔ جنھوں نے بلآخر پچھتر سال بعد وڈیروں کے شکنجے سے ہمت کر کے آزادی پائی اور باہر نکلے۔

میں جب ببرلو دھرنے پر پہنچا تو پہلی بار ایسا دیکھنے کو ملا کہ غریب دہقان، عورتیں اور ان کے بچے تپتی دھوپ میں وہاں پہنچے ہوئے تھے۔ بی بی سی نے تو بہت کچھ رپورٹ کیا ہے لیکن میرے اندازے کے مطابق تقریباً ایک لاکھ کے قریب بچے، عورتیں اور بوڑھے لوگ اس دھرنے میں شریک تھے جو دس روز تک آتے اور جاتے رہے اور جو یقینا کسی نہ کسی وڈیرے کے شکنجے میں رہے ہوںگے۔

سندھ کے مختلف کونوں سے روزانہ لوگ وہاں آتے تھے۔ یہ بھی حیرانی کی بات تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں کنٹینرز اور ٹرک راستہ بلاک ہونے کی وجہ سے وہاں رکے ہوئے تھے، ان ٹرکوں اورکنٹینرز میں اربوں روپوں کا سامان تھا لیکن کسی نے بھی ان کو لوٹنے کی کوشش نہیں کی۔

سندھ کے لاشعور میں صوفیانہ مزاج شامل ہے۔ ان کی ہر تحریک پرامن رہی ہے، وہ کبھی بھی کسی نو مئی جیسے واقعے کو اپنی تحریک کا حصہ نہیں بنا سکتے، مگر دو تین روز قبل جو مورو شہر میں واقعات ہوئے، انھوں نے سندھ کے لوگوں کے پرامن مزاج کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔

 20 مئی کو مورو ہائی وے پر نہروں اور کارپوریٹ فارمنگ کے ایشو پر ایک مظاہرہ کیا گیا ۔ پھر کہیں سے گولیاں چلی ، جواباً مظاہرین میں سے کچھ شرپسندوں نے ضیاء لنجار کے گھر پر حملہ کیا۔ یہ انتہائی غلط ہوا کہ روڈ پر کھڑے ٹرکوں کو آگ لگائی گئی اور ان کو لوٹنے کی کوشش کی گئی جو پرامن مظاہرین کا نہیں بلکہ شرپسند عناصرکا کام تھا جو ان لوگوں میں شامل ہوگئے ۔ اس طرزعمل اور شرپسندوں کی بھرپور مزاحمت کرنی چاہیے۔

ان دو ماہ میں سندھ کے عوام نے جو اپنا ردِ عمل ظاہرکرتے ہوئے حکومت پر اپنی برہمی کا اظہارکیا ہے، اس نے پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کو نہروں کے ایشو پر پسا کردیا، سندھ میں اقرباء پروری، امن و امان کی خراب صورتحال، بے روزگاری! زراعت کے لیے پانی کی شدید کمی نے دیہی سندھ کے کسانوں اور عام طبقے کو پریشان کررکھا ہے۔وڈیرہ شاہی سوچ نے دہقانوں کے بچوں کو تعلیم سے دور رکھا۔

ایسی صورتحال میں ان لوگوں کو سوائے کھیتی باڑی کے کچھ اور آتا بھی نہیں ہے۔ ایک معاصر انگریزی اخبارکی رپورٹ کے مطابق دس برس میں سمندر 124 دیہہ نگل گیا ہے جو برابر ہوگا دس لاکھ ایکڑ زمین کے۔ انڈس ڈیلٹا کی حدود میں رہنے والے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں۔

اس بات کی سمجھ ہمارے حکمرانوں میں شاید ہے ہی نہیں کہ سندھ کی آبادی کے ستر فیصد لوگ تیس سال سے کم عمر کے ہیں اور وہ بے روزگار ہیں۔ سندھ میں غربت و افلاس کے ڈیرے ہیں اور اب ان سے دریا بھی چھینا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے جس طرح سے ان پر وڈیرے مسلط کیے ہیں تو ان کے درمیان قوم پرستوں کی اہمیت مزید بڑھے گی۔ سندھ کو اس وقت انتہائی محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہے، اگر ایسا نہ ہوا تو حالات بہتری کے بجائے مزید ابتری کا شکار ہو جائیں۔

سندھ میں اگر آج شفاف انتخابات کا انعقاد ہوا تو پیپلز پارٹی ووٹ نہیں حاصل کرسکے گی۔ سندھ اپنے خد و خال واضح کرچکا ہے ، وہ وڈیروں کی غلامی سے آزادی کا خواہاں ہے۔ سندھ اپنے حقوق مانگ رہا ہے اور یہ سندھ کا حق ہے، صرف ضرورت ہے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات