40 C
Lahore
Saturday, May 24, 2025
ہومغزہ لہو لہوذکر ایک خطرناک ہتھیار کا

ذکر ایک خطرناک ہتھیار کا


کافی عرصہ پہلے کی بات ہے جب بیماریاں ڈاکٹروں، کلینکوں،اسپتالوں اور دواسازوں کی جاگیر اور ملکیت نہیں ہوتی تھیں۔ہمارے رشتہ داروں میں ایک بچے کو سر کا ایگزیما ہوگیا، سر میں دانے نکلتے پھوٹتے،بہتے اور سرپر کھرنڈ بن کر جمتے۔پورے سر پر گویا ایک ٹوپی سی جم گئی تھی جس میں خارش ہو تو بچہ رونے چیخنے لگتا اور سر کو کرید کرید کر اور نوچ نوچ کر اور زیادہ زخمی کرتا۔بہت سارے ٹوٹکے آزمائے۔

پہلے کہہ چکا ہوں کہ ابھی بیماریاں امراض اور عارضے ’’مسیحاؤں‘‘ کی دودھیل گائیں نہیں بنی تھیں۔پھر کسی نے ایک ٹوٹکا بتایا کہ بچے کے سر پر’’دہی‘‘ لگاؤ اور کتے کے پلے کو اس پر چھوڑدو،بڑا مشکل کام تھا۔بچے کو پکڑنا پلے کو کام پر لگانا۔لیکن کسی نہ کسی طرح کام ہوگیا پلا بچے کے سر پر لگا ہوا دہی چاٹتا تو ساتھ ہی کھرنڈ اور زخموں کو بھی چاٹ لیتا تھا۔کچھ ہی دنوں میں اس نسخے نے جادو کا سا کام کیا بچے کا سر دانوں کھرنڈ اور زخموں سے بالکل صاف ہوگیا اور مرض کا  نام و نشان تک نہیں رہا وہ بچہ آج کل پوتے پوتیوں کا دادا ہے۔

کتے کی زبان کی ایک اور خاصیت بھی ہم نے دیکھی ہے اس کے جسم میں کہیں بھی کوئی زخم بن جائے اور اس کی زبان زخم تک پہنچتی ہو تو وہ زخم ٹھیک ہوجاتا ہے لیکن اگر اس کے’’سر‘‘ پر کان میں کوئی زخم آجائے جہاں اس کی زبان نہیں پہنچتی ہو تو وہ زخم سڑجاتے ہیں کیڑے پڑجاتے ہیں اور کتا مرجاتا ہے یا مار دیا جاتا ہے ہم نے بے شمار کتوں کو سر،کانوں یا گردن کے زخموں سے مرتے دیکھا ہے۔لیکن کیا یہ حیران کن بلکہ بہت بڑی حیران کن بات نہیں ہے کہ مخلوقات میں سب سے حقیر ترین مخلوق کی ’’زبان‘‘ تریاقوں کی تریاق ہو اور خود اشرف المخلوقات اور حیوان اعلیٰ کی ’’زبان‘‘ اتنی تباہ کن اور زہریلی ہو کہ خود اسی کا کہنا ہے کہ تلوار، تیر اور خنجر کے زخم بھر جائیں گے اچھے ہوجائیں گے، اتنے کہ ان کا نام ونشان تک باقی نہیں رہتا لیکن ’’زبان کا زخم‘‘۔بلکہ انسانی زبان کا زخم کبھی نہیں بھرتا۔رستا رہتا دکھتا رہتا اور تڑپاتا رہتا ہے۔کہتے ہیں کہ حضرت لقمان ایک زمانے میں کسی امیر کے غلام تھے تو امیر نے ان سے کہا کہ جاکر بازار سے گوشت لے کر آؤ لیکن گوشت جسم کے بہترین حصے کا ہو۔

لقمان’’زبان‘‘ لے آیا۔پھر کسی روز مالک نے کہا جاؤ گوشت لے آؤ لیکن جسم کے بدترین حصے کا ہو۔وہ اس دفعہ بھی زبان لے کر آئے اور پھر پوچھنے پر بتایا کہ زبان ہی وہ عضو ہے جو بہترین بھی ہے اور بدترین بھی۔پشتو میں کہاوت ہے کہ زبان’’بلا‘‘ بھی ہے اور’’قلا‘‘(قلعہ) بھی یعنی محفوظ رکھنے والی اور تباہ کرنے والی دونوں ہے۔ لیکن ’’زبان‘‘ کے بارے میں یہ سب کچھ تو سب کو معلوم ہے اور ہم ایک ایسے ہی ایک اور خطرناک ہتھیار کے بارے میں آپ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کا منصب خود سنبھالنے والے ہیں۔وہ ہمارا ایک دوست ہے،جس کے بارے میں مشہور ہے کہ جوانی میں کوئی اس کے مقابل آنے کی جرات نہیں کرتا تھا اس نے بڑے بڑے پہلوانوں لڑاکوؤں اور کشتی ماروں کو چت کیا تھا حالانکہ جسمانی لحاط سے وہ کوئی لمبا چوڑا طاقتور آدمی بھی نہ تھا اور یہ سارے کارنامے وہ بغیر کسی ہتھیار کے کرتا تھا۔

ہم سے عمر میں زیادہ تھا لیکن ایک دن ہم نے جرات کرکے پوچھ لیا۔وہ ہنس کر بولا کون کہتا ہے میرے پاس ہتھیار نہیں میرے پاس ایک بہت ہی زبردست موثر اور بے خطا ہتھیار تھا۔لیکن وہ ایک ایسا ہتھیار تھا۔جو ہتھیار تھا ہی نہیں لیکن میں نے اسے ہتھیار بنالیا تھا اور ہتھیار بھی ایسا جس کے سامنے بہت بڑے بڑے’’چیں‘‘ بول دیتے تھے۔پھر اس نے ہمارے اصرار پر اپنا وہ ہتھیار ہمیں دکھا بھی دیا۔اس نے ہونٹ کھول کر دانت دکھاتے ہوئے اور اس پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا یہ ہے وہ ہتھیار۔ہماری حیرت کی انتہا نہیں یہ ہتھیار تو اس خطرناک ہتھیار ہی کا ایک حصہ تھا جس کا زخم تلواروں، خنجروں ،تیروں اور نیزوں سے زیادہ کاری اور زہریلا ہوتا ہے۔ زبان؟اور پھر اس کے ساتھ دہان۔وہ اردو کا ایک شعر تو ایک اور مفہوم کا ہے جس میں زبان اور دہان کا ذکر ہے۔لیکن اس میں وہ مفہوم بھی ہے جو ہم بتانا چاہتے ہیں

زبان بگڑی سو بگڑی نھی خبر بیخوددین بگڑا

اس مرد دہان دراز بلکہ دندان دراز نے ہمیں بتایا کہ جب کوئی اس کے مقابل آتا تھا تو وہ نہ لات مارتا نہ مکا نہ کچھ اور۔بلکہ تاک میں رہتا کہ مقابل کا کونسا حصہ جسم زد میں آسکتا تھا اور پھر اس جگہ جھپٹ کردانت گاڑ دیتا۔انگلی،کان،ناک،چہرہ،بازو کاندھا کچھ بھی اگر دانتوں کی پکڑ میں آجاتا تھا تو اس کی ساری طاقت چیخنے چلانے اور بلبلانے میں مرتکز ہوجاتی جتنا جتنا یہ دانتوں کو زور دیتا تھا اتنا ہی مقابل بلبلانے لگتا۔انور مسعود نے تو’’بلوں‘‘ سے بلبلانے والوں کا ذکر کیا ہے دانتوں سے بلبلانے والوں کا ہم کررہے ہیں۔بلوں یعنی بجلی، گیس، پانی وغیرہ کے بلوں سے بلبلانے والوں کے لیے تو پھر بھی ایک نسخہ ایجاد کیا ہوا ہے

بلوں کے بلبلے بڑھتے رہیں گے

اگر کچھ ’’مک مکے‘‘باہم نہ ہوں گے

لیکن دانتوں کی گرفت میں آنے والوں کے لیے صرف ایک ہی’’مک مکا‘‘ ممکن ہوتا، ہار ماننا اور معافی مانگنا۔اب آپ کو لگ پتہ گیا ہوگا کہ انسان کی صرف زبان ہی خطرناک نہیں بلکہ دہان ودندان بھی بہت موثر ہتھیار ہیں۔اور یہیں پر ہمارے اوپر ایک اور بڑا انکشاف ہوگیا کہ آج کل یہ معاونین برائے رکھنے کا رواج کیوں اتنی تیزی سے پھیل گیا ہے، پھل رہا ہے کہ جاننے والوں کو پتہ لگ گیا کہ سب سے زیادہ کارگر سب سے زیادہ موثر سب سے زیادہ دورمار ہتھیار کیا ہے اور سب نے وہ ہتھیار استعمال کرنا شروع کر دیے۔

ان ہی کالموں میں ہم نے آپ کو دو بہنوں چوہارہ اور منارہ کی بات بتائی تھی۔کہ جہاں بھی کوئی میت ہوتی تھی چوہارہ اور منارہ کو بلا لیا جاتا۔ایک میت کے سرہانے دوسری پائینتی کھڑی ہوجاتی تھی اور میت میں وہ’’خوبیاں‘‘ ڈالنے لگتیں جن کے بارے میں خود میت کو پتہ نہیں ہوتا تھا اور اگر وہ زندہ ہوکر سنتا تو پوچھتا ۔یہ کس کا ذکر کررہی ہیں۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات