کبھی سنا کرتے تھے کہ شاہراہ ریشم پر تجارتی قافلے چلا کرتے تھے۔ ان راہوں پر مال تجارت سے لدے ہوئے خچروں کی گھنٹیاں سنا کرتے تھے۔ تھوڑے فاصلوں پر ان کاررواں کے لیے سرائے، قدیم ہوٹل اور کہیں ایک تندور والی روٹیاں تازہ تازہ مسحور کن خوشبو سے رچی بسی جو بھوک کو بھی دور سے آواز دے کر قریب بلا لیتی تھی اور اپنی مٹی کی ہانڈی سے سالن نکال کر تاجر کو پیش کر دیتی اور پھر قریبی کنوئیں کا ٹھنڈا پانی پی کر تاجر سیر ہو کر اٹھتا اور یوں تجارتی قافلے ہزاروں میل کا سفر طے کرکے یورپ کے ملک ملک، نگر نگر بھی مال تجارت فروخت کرتے تھے۔
یہ شاہراہ ریشم جو قدیم زمانے میں تین براعظموں کو ملاتا تھا، ایشیا سے یورپ، چین سے پاکستان و ایران، اور دوسری طرف مصر سے افریقہ تک۔ یعنی تین براعظموں کا GDP مرکز کے طور پر کام کر رہا تھا اور دنیا خوش حال تھی۔ برصغیر کا تعارف دنیا میں سونے کی چڑیا کے طور پر کرایا جاتا تھا، نہ آئی ایم ایف، نہ ڈبلیو ٹی او ۔ یہ جدید طریقے ایسے کیا نافذ ہوئے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت اب مفلوک الحال بن کر رہ گئی ہے۔ اسی شاہراہ ریشم کی تقلید کرتے ہوئے پاک چائنا کوریڈور یعنی ’’سی پیک‘‘ بنایا گیا۔ اب چین کی میزبانی میں پاکستان، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ مل کر بیٹھے تھے اور اعلان یہ ہوا کہ سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق ہو گیاہے۔
اگر پاکستان کو کابل کے راستے سے وسط ایشیا تک امن و آشتی سے بھرپور تجارتی راہداری مل جاتی ہے تو درآمد و برآمد کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ چین ایک ریلوے ٹرین نیٹ ورک بھی قائم کرنا چاہتا ہے۔ اگر یہ خواب بھی مکمل ہو گیا تو آنے والے دنوں میں چینی مال ہو یا پاکستانی، افغانستان کو بھرپور فائدہ ہوگا۔ ٹرانزٹ فیس ملے گی، ان کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ روزگار فراہم ہوگا، ریلوے اسٹیشن ہوں یا بسوں کے اڈے ان کے ارد گرد ہوٹلوں کی قطار ہوگی، ریسٹورنٹس آباد ہوں گے۔
بیجنگ میں سہ فریقی اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اور چین کے وزیر خارجہ اور افغانستان کے وزیر خارجہ نے شرکت کی۔ اس موقع پر سی پیک کو افغانستان تک توسیع دینے پر اتفاق کیا گیا۔ اس سے تینوں ملکوں کو فائدہ پہنچے گا سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ پاک افغان تجارت پہلے کی طرح بحال ہو۔ کبھی افغانستان پاکستان کے برآمدی ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر تھا۔ جو اب بتدریج کم ہو کر آٹھویں نویں نمبر پر چلا گیا ہے۔
تجارتی حجم سکڑ کر رہ گیا ہے کیونکہ طالبان حکومت کی آمد کے بعد سے تجارتی صورت حال پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس صدی کے آغاز سے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، امن و امان کی بگڑتی صورتحال، گیس کی قلت، بیرونی سیاحوں کی آمد کا تقریباً خاتمہ، غیر ملکی تاجروں کی پاکستان آمد سے انکار، پاکستانی صنعتکاروں کو طرح طرح کے مسائل و مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے باعث ملک کو صنعتی زوال اور معاشی و مالی عدم استحکام اور بدحالی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے موقع پر پہلی ضرورت یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات زیادہ سے زیادہ بہتر ہوں۔ اب اس میں آیندہ چل کر افغانستان کا کیا رویہ ہوتا ہے یا ان کی کیا سیاسی حکمت عملی ہوتی ہے یہ دیکھنا ہوگا۔
ادھر آئی ایم ایف سے بجٹ مذاکرات حتمی مراحل میں داخل ہو گئے ہیں۔ نجکاری عمل تیز کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ایسا معلوم دے رہا ہے کہ بجٹ سے متعلق حکومت کے اختیارات محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف درآمدی گاڑیوں پر ٹیرف میں کمی پر زور دے رہا ہے ایسے میں کس کا بھلا ہوگا، پاکستانی کار کمپنیاں خسارے میں جا کر ملازمین کی چھانٹی کر سکتی ہیں، اس سے ہزاروں پاکستانی ملازم بے روزگار ہو سکتے ہیں اور صنعتی ممالک کا فائدہ ہوگا۔
بجٹ کا اہم ترین تعلق سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن یافتہ افراد کی ماہانہ پنشن اور ملک کے لیے کم ازکم تنخواہ کی حد کا مقرر کرنا بھی ہوتا ہے کیونکہ اس طرح ملازمین کو جو تنخواہ ملتی ہے چاہے وہ سرکاری سطح پر ہو یا نجی پرائیویٹ ملازمین ہوں یا پنشن یافتہ افراد ہوں ان کو جب رقوم ملتی ہیں تو یہ مجموعی رقم ملکی اشیا و مصنوعات کی خریداری، خوراک کی خریداری، پوشاک کی خریداری، جوتوں کی خریداری، ٹرانسپورٹ کرایوں میں پیسہ خرچ ہوتا ہے جس سے ٹرانسپورٹ کا شعبہ ترقی کرتا ہے، ریلوے ٹکٹ خریدنے سے ریلوے کی آمدن بڑھ جاتی ہے۔
بہرحال ہر قسم کی معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہوکر ملک شاہراہ ترقی پر گامزن ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کی تنخواہوں خاص طور پر پنشن یافتہ افراد کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ بوڑھے ریٹائرڈ ملازمین کی فلاح و بہبود سے متعلق کئی اسکیمیں متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔
ملک میں صحت کے حوالے سے سخت بے یقینی پائی جاتی ہے۔ پرائیویٹ علاج کرانا، آپریشن کروانا اب اتنا مہنگا ترین ہو کر رہ گیا ہے کہ سوچ سے بھی زیادہ۔ لہٰذا حکومت صحت کے شعبے میں اصلاحات متعارف کرائے تاکہ ہر شہری کو اس بارے میں اطمینان حاصل ہو۔