30 C
Lahore
Saturday, May 24, 2025
ہومغزہ لہو لہونسل کش خنجر پر ذرا سا ٹھنڈا پانی ڈال لیجیے

نسل کش خنجر پر ذرا سا ٹھنڈا پانی ڈال لیجیے


غزہ میں جاری نسل کشی کے دو سال سات مہینے بعد کم ازکم اتنا ضرور ہوا ہے کہ امریکا کو چھوڑ کے برطانیہ ، فرانس اور کینیڈا جیسے سرکردہ مغربی ممالک  ’’ افسوس ناک صورتِ حال‘‘ اور ’’تشویش‘‘ جیسے الفاظ سے آگے بڑھ کے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر اسرائیل نے غزہ کی غذائی ناکہ بندی ختم نہ کی تو ہم پابندیاں لگانے پر ’’ غور‘‘ کریں گے۔

اسپین نے کئی مہینے پہلے اسلحے اور اشیا کی تجارت معطل کر دی تھی مگر یہ معطلی عملاً علامتی ہے کیونکہ اسرائیل اسپین سے بہت زیادہ تجارت پہلے بھی نہیں کرتا تھا۔ناروے کئی برس سے فلسطینی ریاست کے قیام کا پرزور حامی ہے۔آئرلینڈ غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے پر اسرائیلی اقدامات کا شدید مخالف ہے۔ مگر تجارتی تعلقات اپنی جگہ قائم ہیں۔

فرانس کو بھی غزہ میں اسرائیلی رویہ ’’ شدید ناپسند ‘‘ ہے۔فرانسیسی صدر میخواں اور وزیرِ خارجہ اکثر اسرائیل کی غزہ پالیسی پر ’’ سخت ردِعمل ‘‘ بھی دیتے رہتے ہیں۔ صدر میخواں تو کبھی کبھی اتنے تڑپ جاتے ہیں کہ نیتن یاہو سے ٹیلی فونک بات چیت میں یہاں تک بھی جتا دیتے ہیں کہ ’’ فرانس کو آپ کے رویے اور بین الاقوامی ردِ عمل پر آپ کی سنی ان سنی کا بہت قلق ہے ‘‘۔مگر فرانس نے اسرائیل سے تجارت یا اسلحے کا کاروبار جزوی طور پر ہی معطل کرنے کے لیے اب تک کوئی ٹھوس قدم اٹھایا ؟ ممکن ہے کوئی ’’ خفیہ ‘‘ اٹھایا ہو ۔

جرمنی جہاں فلسطین کا جھنڈا لہرانا بھی قابلِ گرفت یہود دشمن فعل ہے۔کبھی کبھی منہ کا ذائقہ بدنے کے لیے جرمن چانسلر بھی غربِ اردن اور غزہ میں جاری اسرائیلی اقدامات پر ’’ ناخوشی ‘‘ کا اظہار کر لیتے ہیں۔

برطانیہ نے بالاخر ’’ ضمیر ‘‘ کے ہاتھوں مجبور ہو کر گزشتہ برس ستمبر میں اسرائیل کو ہتھیار برآمد کرنے والی برطانوی کمپنیوں کے لیے تیس نئے لائسنسوں کا اجرا روک دیا اور گزشتہ ہفتے اسرائیل کو ’’ پسندیدہ تجارتی ملک ‘‘ کا درجہ دینے والے مذاکرات بھی معطل کر دیے۔نیز مزید ’’ تادیبی اقدامات ‘‘ کی بھی ’’ دھمکی ‘‘ دی ہے۔

مگر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ گزشتہ جمعہ کو ہی برطانوی دارالعوام میں قائمہ کمیٹی برائے تجارت کے سربراہ لیام بائرن نے وزیرِ تجارت ڈگلس الیگزینڈر اور وزارتِ دفاع کے اہل کاروں سے پوچھا کہ گزشتہ برس اسرائیل اور برطانیہ کے تجارتی تعلقات کا کیا احوال رہا؟ کیونکہ سرکاری محکمہ شماریات نے جو تازہ ترین اعداد و شمار پیش کیے ہیں وہ حکومت کے اس دعوی کے بالکل برعکس ہیں کہ اسرائیل کے لیے برطانوی اسلحے کی ترسیل میں رکاوٹ ڈال دی گئی ہے ۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ ستمبر میں نئے اسلحہ لائسنوں کے اجرا پر پابندی کے بعد کے تین ماہ میں برطانوی کمپنیوں نے اسرائیل کو لگ بھگ ایک سو ستائیس ملین پاؤنڈ کے دفاعی آلات بھیجے۔یہ مالیت سال دو ہزار بیس سے تئیس تک ہونے والی دفاعی تجارت کی مجموعی مالیت سے بھی زیادہ ہے۔

جب ایوان میں شیم شیم کے نعرے بلند ہوئے تو وزیرِ خارجہ ڈیوڈ لامی نے یہ دلیل پیش کی کہ ’’ سرکار نے اسرائیل کو جو آلات فروخت کیے ہیں وہ غزہ میں استعمال کرنے کے لیے نہیں ’’۔اس بودی دلیل پر مزید شیم شیم ہوئی۔ایوان کی گیلری میں موجود ایک نامہ نگار نے برجستہ کہا ’’ سرکاری پالیسی یہ ہے کہ اسرائیل بے شک غزہ میں نسل کشی کرے مگر ہم سے خریدے خنجر پر ٹھنڈا پانی ڈال کر ‘‘۔

جہاں تک یورپی یونین کا معاملہ ہے تو یونین کے ٹریڈ کمشنر مسلسل مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ یونین کو اسرائیل کے ساتھ تجارت معطل کرنے کے ’’ امکانات ‘‘ پر غور کرنے کے لیے سنجیدگی سے ’’ سوچنا ‘‘چاہیے۔یونین یہ تک نہ کر سکی کہ موسیقی کے براعظمی مقابلے ’’ یورو ویڑن ’’ میں اسرائیل کی شرکت ہی روک دے۔اسرائیلی گلوکار گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی یورو ویڑن میں دھڑلے سے شریک ہوئے۔

یورپی یونین کے اکثر ارکان بین الاقوامی عدالتِ انصاف اور بین الاقوامی جرائم کی عدالت کے رکن ہیں۔مگر آج تک کسی بھی یورپی ملک نے کھل کے نہیں کہا کہ اگر انٹرنیشنل کرائم کورٹ کے سمن یافتہ دو اشتہاری ملزم ’’ مسمی نیتن یاہو اور مسمی یوو گیلنٹ‘‘ (سابق وزیرِ دفاع ) ہماری فضائی حدود سے گذرے تو ہم انھیں حراست میں لے کر عدالت کے حوالے کرنے میں ہر ممکن تعاون کریں گے۔

ہنگری نے تو یہ سمن جاری ہونے کے بعد انٹرنیشنل کرائم کورٹ سے اپنی رکنیت ہی واپس لے لی اور جرمنی گرفتاری وارنٹ کے خلاف اپیل میں فریق بن گیا۔امریکا نے عدالتی اہلکاروں کی ملک میں آمد کو ممنوع قرار دے دیا۔تب سے نیتن یاہو دو بار واشنگٹن اور ایک بار ہنگری جا چکے ہیں۔ پیغام واضح ہے کہ ہم بین الاقوامی عدالتوں کو بھی اسی جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں جو ہمیں مغرب نے ہی پہنایا ہے۔

اہلِ مغرب کو کیا روئیں۔خود جن مسلمان ممالک کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی تعلقات معطل نہیں کیے۔بلکہ بحیرہ قلزم کے راستے پر یمن کے ہوثیوں کی ناکہ بندی کے نتیجے میں اسرائیلی بندرگاہ ایلات میں سناٹے کے بعد اسرائیل اب خلیج اور اردن کے راستے ایشیائی ممالک سے درآمد و برآمد جاری رکھے ہوئے ہے۔

ٹرمپ نے تین خلیجی ریاستوں میں پانچ دن گذارے اور ساڑھے تین ٹریلین ڈالر کے تجارتی و سرمایہ کاری سمجھوتے کیے۔ایک بار بھی کسی میزبان کے منہ سے نہیں نکلا کہ ظلِ الہی آپ کی ہر بات پر آمنا و صدقنا۔ بس زرا سی جنگ بندی بھی کروا دیجے تاکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی کچھ دلجوئی ہو جائے۔

پچھلے دو برس سات ماہ میں کسی مغربی ملک نے اسرائیل کے سفیر کو طلب کر کے پچپن ہزار سے زائد فلسطینیوں کی نسل کشی پر ایک بھی احتجاج ریکارڈ نہیں کروایا۔مگر جب گزشتہ بدھ کو مقبوضہ مغربی کنارے کا دورہ کرنے والے لگ بھگ تیس رکنی عالمی سفارتی وفد پر اسرائیلی فوج نے گولیاں برسا کے یہ دورہ افراتفری میں ختم کروایا۔اس کے بعد یورپی دارلحکومتوں میں اسرائیلی سفیروں کو طلب کر کے ’’ سخت احتجاج ’’ کیاگیا۔اسرائیل فوج نے کہا کہ دراصل اس وفد کی حفاظت کے لیے ہوائی فائرنگ کی گئی تھی۔ اگر وفد میں شامل کسی رکن کو کوئی ’’ زہنی ٹھیس ’’ پہنچی تو ہم معذرت خواہ ہیں۔

اس تناظر میں اگلی بار جائزہ لیں گے کہ پچھلے دو برس سات ماہ میں اقتصادی بائیکاٹ کی عوامی تحریکوں اور اس بابت ریاستی یقین دہانیوں کے بعد اسرائیل کے عالمی تجارتی تعلقات میں کیا ڈینٹ پڑا؟

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات