36 C
Lahore
Friday, May 23, 2025
ہومغزہ لہو لہومحمد رفیع (دوسرا اور آخری حصہ)

محمد رفیع (دوسرا اور آخری حصہ)


ٹاپ کے ہیرو مثلاً دلیپ کمار، ششی کپور، شمی کپور اور راج کمار سبھی یہ چاہتے تھے کہ رفیع صاحب ہی ان کے لیے گیت گائیں اور سبھی میوزک ڈائریکٹر بھی رفیع صاحب ہی کو لینا چاہتے تھے۔ جیسے او پی نیئر، نوشاد، روی، لکشمی کانت پیارے لال، شنکر جے کشن اور دوسرے سنگیت کار۔ لکشمی کانت اور پیارے لال کا تعلق بھی بہت پرانا تھا، ایک بار ایسا ہوا کہ رفیع صاحب کے پاس یہ دونوں موسیقار آئے اور ان سے کہا کہ ہم ابھی فلمی دنیا میں نئے ہیں اور ہمارے پاس زیادہ پیسے بھی نہیں ہیں، اگر آپ ایک گیت گا دیں گے تو ہماری فلم بھی ہٹ ہو جائے گی۔ رفیع صاحب نے دھن سنی، انھیں پسند آئی، لہٰذا انھوں نے گانا ریکارڈ کروا دیا، ریکارڈنگ کے بعد لکشمی کانت نے ایک ہزار روپے لفافے میں رکھ کر ان کی نذر کیے۔ رفیع صاحب نے لفافہ کھولے بغیر دونوں بھائیوں کو لفافہ واپس کرتے ہوئے کہا ’’میری طرف سے اس کی مٹھائی کھا لینا اور ہمیشہ مل بانٹ کر کھانا۔‘‘ دونوں بھائی ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ ’’ رفیع صاحب جیسا مہان کوئی دوسرا نہیں۔‘‘

رفیع صاحب کے کل گانوں کی تعداد ہے 4,500۔ انھوں نے ایک بار ایک موسیقار سے کہا کہ وہ بھجن بھی گانا چاہتے ہیں، انھوں نے چند بھجن گا کر انھیں سنائے اور کہا کہ ان بھجنوں کو کسی نہ کسی فلم میں استعمال کر لیں۔ ایسا ہی ہوا۔ فلم ’’ بیجو باورا‘‘ میں سبھی گیت محمد رفیع ہی نے گائے، اس فلم کے تمام گانے ہٹ ہوئے خاص کر یہ گیت:

 1۔ او! دنیا کے رکھوالے سن درد بھرے میرے نالے

2۔ تُو گنگا کی موج میں جمنا کا دھارا

3۔ جھولے میں پون کے آئی بہار

4۔ من تڑپت ہری درشن کو آج

اور ایک کلاسیکل گیت بھی بڑا مشہور ہوا۔ بیجو باورا کے گیارہ کے گیارہ گیت گلی گلی بجنے لگے۔ نوشاد صاحب کی ہر فلم کے گانے اسی طرح مقبول ہوتے تھے، لیکن ’’ بیجو باورا‘‘ کا یہ گیت بھی بہت مقبول ہوا اور گلی گلی ریڈیو سے بجنے لگا۔

انسان بنو کر لو بھلائی کا کوئی کام

دنیا سے چلے جاؤ گے رہ جائے گا بس نام

یہ فلم 1952 میں بنی تھی، اس فلم میں شمشاد بیگم نے بھی گیت گائے تھے۔ رفیع صاحب کے بے شمار گیت ایسے ہیں جو برابر ریڈیو سیلون سے بجتے رہے۔ بناکا گیت مالا میں ٹاپ پر زیادہ تر رفیع صاحب کے گانے ہوا کرتے تھے جیسے فلم ’’شعلہ و شبنم‘‘ کا یہ گیت:

جانے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں یہ آنکھیں مجھ میں

راکھ کے ڈھیر میں شعلہ ہے نہ چنگاری ہے

فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کا یہ گیت بھی گلی گلی بجتا تھا:

یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں

کس کو سناؤں حالِ دل بے قرار کا

بجھتا ہوا چراغ ہوں اپنے مزار کا

یا شنکر جے کشن کے سنگیت میں یہ گیت:

میں زندگی میں ہر دم روتا ہی رہا ہوں

روتا ہی رہا ہوں تڑپتا ہی رہا ہوں

……٭……

میرا یار بنا ہے دولہا اور پھول کھلے ہیں دل کے

میری بھی شادی ہو جائے دعا کرو سب مل کے

یا فلم ’’پیاسا‘‘ میں رفیع صاحب نے جانی واکر کو بھی اپنی آواز دی:

سر جو تیرا چکرائے یا دل ڈوبا جائے

آ جا پیارے پاس ہمارے کاہے گھبرائے

1948 میں مہاتما گاندھی کے قتل کے بعد جو گیت گایا وہ بھی امر ہو گیا، اس گانے کے کئی ہزار ریکارڈ فروخت ہوئے، گیت یہ تھا:

سنو سنو! اے دنیا والو! باپو کی یہ امر کہانی

اس گیت کے موسیقار تھے حسن لال بھگت رام۔

رفیع صاحب کے ساتھ ہر فلم ساز اور موسیقار کام کرنا چاہتا تھا، انھیں لگتا تھا کہ اگر رفیع صاحب گانا گائیں گے تو فلم ہٹ ہو جائے گی۔ انھوں نے اوپی نیئر کے لیے کل 200 گانے گائے جن میں ہر طرح کے گانے تھے۔ رال اینڈ رول بھی تھے اور نئی پیڑھی کی پسند بھی۔ ان کے علاوہ شنکر جے کشن کے لیے341 گیت گائے اور موسیقار روی کے لیے 130 گانے گائے۔

اوپی نیئر سے رفیع صاحب کی بہت دوستی تھی، وہ کہتے تھے مجھے اوپی نیئر بنایا محمد رفیع نے، اگر وہ نہ ہوتے تو میں بھی نہ ہوتا۔ ایس۔ڈی برمن نے ان کی آواز گرودت اور دیو آنند کے لیے زیادہ استعمال کی۔ انھوں نے مست مولا گیت بھی گائے، موسیقار روی کا کہنا ہے کہ ’’رفیع صاحب کو کوئی بھی گانا دیجیے وہ اس خوبی سے گاتے ہیں کہ دیکھنے والوں کو یہ لگتا ہے جیسے اداکار گا رہا ہو۔ رفیع صاحب کو پہلا فلم فیئر ایوارڈ گرودت کی فلم ’’چودھویں کا چاند‘‘ پر ملا تھا، گیت یہ تھا:

چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو

جو بھی ہو تم خدا کی قسم لاجواب ہو

انھیں نیشنل ایوارڈ اور پدم شری ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ وہ وقت اور کام دونوں پابندی سے کرتے۔ موسیقار خیام رفیع صاحب کے بڑے معتقد تھے۔ ان کی بہو نے رفیع صاحب پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ رفیع صاحب کسی قسم کا بھی نشہ نہیں کرتے تھے، نہ ہی وہ بالی وڈ کی رنگین محفلوں میں شریک ہوتے تھے۔ اسٹوڈیو سے گھر اور گھر سے اسٹوڈیو، یہی ان کی زندگی تھی۔ نماز اور روزے کی پابندی کرتے تھے، فلم ’’ کوہِ نور‘‘ میں ان کا ایک گانا آج تک مشہور ہے، گانے والے اس گیت کو گاتے ہیں، وہ گیت ہے:

مدھو بن میں رادھیکا ناچے رے

گردھر کی مرلیا باجے رے

اس گیت کو ریکارڈ کرواتے وقت دلیپ کمارکی انگلیاں ستار بجانے سے زخمی ہوگئیں۔ فلم دیکھنے سے پتا چلتا ہے جیسے خود دلیپ صاحب گا رہے ہوں۔ 18 جنوری 1980 کو جب صرف پچپن سال کی عمر میں وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ خدا ان کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ (آمین)



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات