42 C
Lahore
Wednesday, May 21, 2025
ہومغزہ لہو لہوکشش بلوچ، مہر گڑھ کی وارث

کشش بلوچ، مہر گڑھ کی وارث


جب بلوچستان کا ذکر آتا ہے تو ذہن میں پسماندگی، شورش، محرومیاں اور لاپتہ افراد کا تصور ابھرتا ہے، مگر ان اندھیروں میں ایک روشن چراغ ’’کشش بلوچ ‘‘کے نام سے جل اٹھا ہے، جو نہ صرف رخشان ڈویژن کی بلکہ پورے بلوچستان کی بیٹیوں کے لیے امید کی علامت بن چکی ہیں۔

ضلع نوشکی 25 سالہ ہندو لڑکی کشش بلوچ نے صوبائی مقابلے کا (پی ایس سی) امتحان پاس کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے، وہ رخشان ڈویژن سے پہلی خاتون اسسٹنٹ کمشنر بن گئی ہیں۔ یہ کامیابی محض ایک انفرادی کارنامہ نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر بلوچستان کے نوجوانوں، خصوصاً خواتین کو مواقعے دیے جائیں تو وہ بھی ملک کے اعلیٰ ترین اداروں میں جگہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔

کشش بلوچ نے ابتدائی تعلیم نوشکی سے حاصل کی اور بعد ازاں بلوچستان یونیورسٹی کوئٹہ سے سوشیالوجی اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرزکیا۔ ان کی علمی جستجو نے انھیں وقت سے پہلے ہی مقابلے کے امتحان کی تیاری کی طرف راغب کیا۔

یہی نظم، ہمت اور بصیرت انھیں اس مقام تک لے آئی ہے جہاں آج وہ کھڑی ہیں۔ کشش بلوچ کا کہنا ہے کہ سول سروس میں شامل ہونا ان کے لیے صرف ایک کامیابی نہیں بلکہ ایک خواب کی تعبیر ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ اس پلیٹ فارم سے اپنے صوبے اور عوام کی خدمت کریں، خاص طور پر ان نوجوانوں کے لیے جو وسائل کی کمی اور معاشرتی رکاوٹوں کے باعث پیچھے رہ جاتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ سول سروس میں شمولیت کو ایک بڑے اعزاز کے ساتھ ایک بھاری ذمے داری بھی سمجھتی ہیں۔ ان کی نظر میں سول سروس صرف ایک پیشہ نہیں، بلکہ عوامی خدمت کا مقدس وسیلہ ہے، وہ اس نظام کا ایسا چہرہ بننا چاہتی ہیں جو اقلیتوں، خواتین اور پسماندہ طبقات کی آواز بنے۔

ان کی کامیابی ان تمام والدین کے لیے بھی ایک پیغام ہے جو بیٹیوں کو تعلیم سے محروم رکھتے ہیں۔ کشش بلوچ آج اس مقام پر ہیں کیونکہ ان کے والدین نے ان پر یقین کیا، انھیں تعلیم دلوائی، خواب دیکھنے دیے اور ان خوابوں کی تعبیرکے لیے راستہ ہموارکیا۔ بلوچستان امورکے ماہر صحافی عزیز سنگھور لکھتے ہیں کہ آج جب بلوچستان مختلف بحرانوں کا سامنا کر رہا ہے، تو کشش بلوچ جیسے کردار ہمارے لیے نشانِ امید ہیں۔

بلوچستان کو مزید کشش بلوچوں کی ضرورت ہے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم تعلیم، مساوات اور مواقع کی فراہمی کو ہر فرد کا بنیادی حق تسلیم کریں۔ کشش بلوچ کی کامیابی محض ایک تعلیمی یا پیشہ ورانہ سنگِ میل نہیں، بلکہ ایک تہذیبی استعارہ ہے۔ ان کا تعلق ہندو دھرم سے ہے، جو بلوچستان کی صدیوں پرانی مذہبی ہم آہنگی، تنوع اور قبولیت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

مہرگڑھ کی قدیم تہذیب سے لے کر آج تک، بلوچستان کی سر زمین پر مختلف مذاہب، اقوام اور ثقافتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھا ہے۔ کشش بلوچ اسی روایت کی ایک تازہ مثال ہیں۔ کشش بلوچ کی کامیابی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ بلوچستان میں اگر وسائل، تعلیم اور اعتماد دیا جائے تو یہاں کے نوجوان صرف صوبے نہیں، بلکہ ملک اور انسانیت کی خدمت کے لیے نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کی شخصیت مذہبی رواداری، تعلیمی وقار اور خدمتِ خلق کا حسین امتزاج ہے۔

 بلوچستان میں تعلیمی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے اور یہ بلوچستان کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ بن چکی ہے۔ یہاں کی شرحِ خواندگی 46 فیصد ہے، جس میں 63 فیصد مرد اور 26 فیصد خواتین پڑھائی میں حصہ لیتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار خود ہی بتاتے ہیں کہ خواتین کی تعلیم کی صورتحال خاص طور پر کمزور ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق 65 فیصد دیہی لڑکیاں کبھی اسکول نہیں گئیں۔ بلوچستان میں 36 لاکھ بچوں میں سے صرف 13 لاکھ بچے اسکول جاتے ہیں اور ان میں اکثریت لڑکوں کی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے صرف دور دراز علاقوں میں محدود اسکولز موجود ہیں، اور اس کے علاوہ صرف درجن بھر ڈگری کالجز ہیں۔ گیارہ اضلاع میں تو لڑکوں کے لیے بھی ڈگری کالجز نہیں ہیں۔

بلوچستان میں 900 گھوسٹ اسکولز ہیں، جہاں کوئی تعلیمی سرگرمی نہیں ہو رہی۔ مزید یہ کہ ڈیڑھ لاکھ اساتذہ کا ریکارڈ بھی موجود نہیں، اور 3 لاکھ طلبہ کا جعلی ریکارڈ بنایا گیا ہے، جو کہ تعلیم کے معیار اور اداروں کی کرپشن کی بدترین مثال ہے۔

بلوچستان کے 36 فیصد اسکولز میں پینے کا صاف پانی نہیں ہے، جب کہ 56 فیصد اسکولوں میں بجلی کی فراہمی نہیں ہے۔ تعلیمی اداروں کی بنیادی سہولتوں کا فقدان طلبہ کی تعلیم میں رکاوٹ ڈال رہا ہے اور ان کی تعلیمی ترقی کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ بلوچستان کے کالجز اور یونیورسٹیز کی صورت حال بھی انتہائی خراب ہے۔ بولان میڈیکل یونیورسٹی میں 6 ماہ سے تدریس معطل ہے۔ ان میں سے اکثر اداروں میں فیسوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، ہاسٹلز کی کمی ہے۔

عزیز سنگھور مزید لکھتے ہیں کہ بلوچستان کی سیاسی تاریخ پر اگر ایک تنقیدی نگاہ ڈالی جائے تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ سردار اور نواب طبقہ ہمیشہ سے کسی نہ کسی سامراجی طاقت کا آلہ کار رہا ہے۔ برطانوی سامراج کے دور میں انھی سرداروں نے انگریز سرکار کی وفاداری کا دم بھرا، مراعات حاصل کیں اور بلوچ عوام کو محکوم بنائے رکھا۔ آج یہی طبقہ بلوچستان کے اقتدار پر قابض ہے۔ صرف اس صدی کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقائق ظاہر ہوتے ہیں کہ بلوچستان میں چلنے والی سیاسی تحریک ایک انقلابی اور عوامی تحریک کے طور پر ابھری ہے جس میں نوجوانوں میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جس کی سب سے بڑی خوبی اس کا نظریاتی ڈھانچہ ہے۔

یہ تحریک کارل مارکس کے طبقاتی نظریے پر استوار ہے، جس نے بلوچ سماج میں رائج صدیوں پرانے سرداری نظام کو چیلنج کیا اور مظلوم طبقات کو متحرک کیا۔ مارکسی فلسفہ نے بلوچ نوجوانوں کو طبقاتی شعور دیا، جس کے نتیجے میں تحریک کی قیادت اب مراعات یافتہ اشرافیہ کے بجائے متوسط اور نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کے ہاتھ میں ہے۔

 اسلام آباد کے آئین ساز اداروں کے ماہرین کو بلوچستان کے سماج کے نئے حقائق کا ادراک کرنا چاہیے، اب نوجوان قیادت خواتین کے پاس ہے۔ ان نوجوانوں سے بات چیت کا کوئی راستہ نکالا جانا چاہیے۔ بلوچستان کے نوجوانوں میں ٹیلنٹ ہی ٹیلنٹ ہے۔ اس ٹیلنٹ سے فائدہ اٹھانے کے لیے نوآبادیاتی سوچ تبدیل کرنا ہوگی۔



مقالات ذات صلة

جواب چھوڑ دیں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

الأكثر شهرة

احدث التعليقات